روزہ اور اہتمام اہل تصوف

روزہ اور اہتمام اہل تصوف 
صوفیاے کرام کے آداب صوم:
روزے کے آداب کے سلسلے میں صوفیاے کرام کا یہ نصب العین رہا ہے کہ ظاہر وباطن کا ضبط اور اعضاے جوارح کو گناہوں سے باز رکھنا،جس طرح کھانے سے نفس کو روکا جائے اسی طرح نفس کو افطار کے اہتمام سے بھی باز رکھا جائے (یعنی اپنے آپ کو کھانے پینے میں زیادہ مصروف نہ کرے بلکہ عبادت اور دل کی صفائی کا اہتمام کرے) اسی طرح مباح چیزوں کو چھوڑ کر حرام اور گناہ آلود چیزوں سے افطار اور روزہ نہ رکھے۔حضرت ابودرداءرضی اللہ عنہ کا ارشاد ہے  کہ ان دانشوروں(صوفیاے کرام )سونا اور روزہ افطار کرنا کس قدر پسندیدہ اور لائق تحسین ہےاس کے بر عکس احمقوں کاشب زندہ دار رہنا اور صایم ہونا بسا اوقات ان کے نقصان کا موجب ہوتا ہے،اس لیے اہل یقین اور متقی کا ایک ذرہ بھرعمل فریب خوردہ لوگوں کے اعمال کے پہاڑ سے کہیں  افضل و اعلی ہوتا ہے۔
روزے کے آداب:
صوفیاے کرام کے نزدیک روزے کے آداب اور اس حق کی ادائیگی کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ غیر روزے کی حالت میں انسان جتنا کھاتا ہے اس سے کم افطار میں کھاے کہ اگر روزے کی افطار پر یا کھانے کے وقت بہت سے کھانے جمع کر لیے جائیں تو اس صورت میں روزے میں کم کھانے کی تلافی ہوجاتی ہے اور روزے کا مقصد ہی فوت ہوجاتاہے۔ حالانکہ صاف ظاہر ہے کہ روزے کا مقصد اس کے ذریعے نفس کو مغلوب کیا جائے، اور اس کو حد سے بڑھنے نہ دیا جائے ۔اور صرف بقدر ضرورت کھانا کھایا جائے۔ارباب طریقت اس نقطے سے بخوبی واقف ہیں کہ ضرورت اور نفس کے خواہش کی کمی پر اکتفا کرنے سے نفس کو تمام افعال واقوال میں بقدر ضرورت"پراکتفاکرنے کا عادی بنایا جا سکتا ہےاور نفس کی فطرت میں ہے کہ اگر اس کو امور الہیہ  میں سے کسی ایک امر  کا بقدر ضرورت عادی  اور پابند بنادیا جائے تو پھر تمام واقوال میں اس کی پابندی کرتاہے۔
رزق حلال سے افطار کیجیے:
حدیث شریف میں آیا ہے کہ بہت کم روزے دار ایسے ہیں جن کے روزے کا حصہ بھوک یا پیاس ہوتا ہے۔  توضیح اس سے مراد وہ روزے دار ہیں جو دن بھر بھوکے پیاسے رہتے ہیں،اور حرام چیز سے روزہ افطار کرتے ہیں۔یا وہ لوگ جو حلال غذا سے   روزہ رکھتے ہیں اور غیبت کرکے لوگوں کے گوشت سے افطار کرتے ہیں ۔ حضرت سفیان ثوری کا قول ہے جس نے غیبت کی اس کا روزہ فاسد ہوگیا۔حضرت مجاہد فرما تے ہیں:دو عادتیں غیبت اور جھوٹ روزہ کو فاسد کردیتی ہیں ۔
 دو عورتوں کا عجیب روزہ:
ایک حدیث شریف میں مذکور ہے کہ دو عورتوں نے  رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میںروزہ رکھا۔ دن کے آخری حصے میں بھوک اور پیاس کی شدت سے ہلاکت کے قریب ہوکر   رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں افطار کرنے کی اجازت پر مبنی پیغام بھیجا۔  رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے پاس ایک قدح بھیجا،اور فر مایا کہ ان سے کہو کہ انہوں نے جو کچھ کھایا ہے اس پیالے میں قے کردیں۔ان میں سے ایک نے قے کردی ۔اس قے میں نصف حصہ خالص خون تھا ۔اور نصف حصہ تازہ گوشت کا،اور آدھا پیالہ بھر گیا۔پھر دوسری نے قے کی اس کی قے بھی پہلے عورت کی طرح تھی۔ اس طرح وہ پیالہ بھر گیا۔یہ دیکھ کر لوگوں کو بہت تعجب ہوا۔  رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فر مایا ان دونوں نے ان چیزوں کو کھاکر روزہ رکھا تھا،جو انکے لیے حلال تھیں۔لیکن انہوں نے ان چیزوں پر افطار کیا جو حرام تھیں۔
روزہ میں صوفیاے کرام کا منہج:
صوفی وہی ہے جس کی کوئی مقررہ روزی نہ ہو، اور نہ اس کو اس بات کا علم ہو کہ اس کا رزق اس کے پاس کب پہنچے گا ۔اور جب اللہ اس کو رزق پہنچادے، تواس کو ادب کے ساتھ تناول کرے۔اگر ایسا شخص روزہ رکھے جس کی وجہ معاش موجود و معلوم نہیں ہے،تو اس کا روزہ اکمل و افضل ہے۔
حضرت ردیم بیان کرتے ہیں کہ میں دو پہر کی گرمی میں بغداد کی ایک گلی سے گزر رہا تھا ۔ مجھے بہت زیادہ پیاس لگی۔میں ایک دروازے پر گیا اور پانی مانگا۔اندر سے ایک کنیز اپنے ہاتھ میں ایک نیا پیالہ ٹھنڈا پانی بھرا ہوا،لے کر آئیں۔میں نے جب ارادہ کیا کہاس کے ہاتھ سے پیالہ لے کر پانی پیوں۔تو اس کنیز نے کہا واہ!صوفی صاحب!دن میں پانی پینا چاہتے ہو؟یہ کہ کر اس یہ کوزہ زمین پر دے مارا۔اور واپس چلی گئی۔شیخ ردیم فرماتے ہیں:اس واقعے سے میں بہت نادم ہوا۔اور میں نے عہد کرلیا،کہ پھر کبھی افطار نہیں کروں گا۔
رمضان المبارک کی خصوصیات:
حضرت سیدنا جابر بن عبداللہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فر مایا:میری امت کو ماہ رمضان میں پانچ چیزیں ایسی عطاکی گئی 
جومجھ سے پہلے کسی نبی کو نہ ملیں۔پہلی چیز جب رمضان المبارک کی پہلی رات ہوتی ہے تو اللہ رب العزت ان کی طرف رحمت کی نظر فرماتاہے۔اور جس کی طرف اللہ نظر رحمت فرمائے اسے کبھی بھی عذاب نہ دے گا۔2شام کے وقت ان کے منہ کی بو،جوبھوک کی وجہ سے ہوتی ہے،اللہ تعالی کے نزدیک مشک خوشبو سے بہتر ہے ۔3فرشتے ہر رات اور دن ان کےلیے مغفرت کی دعائیں کرتے رہتے ہیں۔4اللہ تعالی جنت کو حکم فرماتاہے:میرے نیک بندوں کےلیے مزین ہوجا،عنقریب وہ دنیا کی مشقت سےمیرے گھر اور کرم میں راحت پائیں گے ۔5جب ماہ رمضان کی آخری رات آتی ہےتواللہ سب کی مغفرت فرمادیتاہے۔ قوم میں سے ایک شخص کھڑے ہو کر عرض کی ۔یا رسول اللہ کیا وہ لیلۃ القدرہے؟ارشاد فرمایا:نہیں ۔کیا تم نہیں دیکھتے کہ مزدور جب اپنے کاموں سے فارغ ہو جاتےہیں تو انہیں اجرت دی جاتی ہے ۔
رمضان المبارک کےاسما:
رمضان المبارک کے چار نام ہیں۔ماہ رمضان ۔ماہ صبر۔ماہ مواسات ۔ماہ وسعت رزق۔حضرت مفتی احمد یار خان نعیمی تفسیر نعیمی میں فرماتے ہیں:روزہ صبر ہے جس کی جزا صبر ہے ۔اور وہ اسی مہینے میں رکھا جاتا ہے ۔اس مہینے میں سارے مسلمانوں سے خاص کر اہل قرابت سے بھلائی کرنا زیادہ ثواب ہے ۔اس لیے اسے ماہ مواسات کہتے ہیں ۔اس میں رزق کی فراخی بھی ہوتی ہے کہ غریب بھی نعمتیں کھا لیتے ہیں ۔اس لیے اس کا نام ماہ وسعت رزق بھی ہے ۔
روزہ اور امور الہی:
رمضان المبارک میں مسلمان روزے کے ساتھ ساتھ نمازیں بھی ادا کرتا ہے ۔نماز چار قسم کی ہوتی ہیں:عوام کی نماز:عوام کی نماز عادت کے طور پر ہے۔ہزار سال عبادت کند نمازی نیست۔ہزار برس بھی عبادت کرے مگر نمازی نہیں ۔بعض کا کہناہے:نہ ہمیں شستن برخاستنت ہست نماز ،دل چوں حاضر نہ بودجنبش بے کار چہ سود۔تیرا اس طرح دھونا اور اٹھنا 
،یعنی ظاہری وضو میں ہاتھ پاؤں کا دھونا اور نماز میں رکوع و سجود میں اس طرح اٹھنا نماز نہیں ۔ اگر دل حاضر نہ ہو تو اس جنبش بے کار سے کیا فائدہ ۔دل کو حاضر کئے بغیر ہرگز نماز نہیں ۔
عابد کی نماز:عابد کی عبادت کو صلواخمسكم.پانچوں نمازیں پڑھا کرو،کے حکم سے کرتے ہیں ۔
سالک کی نماز:سالک کی نماز دائمی ہوتی ہے ۔ان کی نماز سوتے جاگتے،کبھی قضا نہیں ہوتی،بلکہ ہر لمحہ اداہوتی ہے۔یعنی جس شخص کو نیازی کاشرف حاصل ہے۔وہ خرابات کے کوچے میں چاہے، ہوشیار ہو یامست اس کی ہوشیاری یامستی دونوں عین نماز ہیں ۔نہیں!نہیں!عاشقوں کی نماز اپنے وجود کو چھوڑ دینا ہے ۔
کامل کی نماز:کاملین کی نماز نہ یہ ہے اور نہ وہ ۔قیام، قعدہ، تکبیر، اورنیت یہ سب عین معیت میں گم ہے۔حسین بن منصور رحمۃ اللہ علیہ ہر رات پانچ سو رکعات نفل نماز پڑھتے تھے ۔
روزہ کے اقسام:
روزہ چار قسم کا ہوتا ہے:۱،عوام کا روزہ:عوام کا روزہ غروب آفتاب کا انتظار اور بے فائدہ خواہش ہے ۔۲،عابد کا روزہ:عابد کا روزہ صوموا شهركم. پورے ماہ کے روزے رکھو،کے حکم کے مطابق ہے۔۳،سالک کا روزہ:سالک کے روزے کا تعلق دل سے ہوتا ہے، یعنی اس کا دل کسی طرف متوجہ نہیں ہوتا۔
خلاصہ اس لیے رمضان المبارک میں اپنے دل کی صفائی کیجیے ۔اس لیے کہ سارے معاملات کا تعلق دل سے بہت گہرا ہے۔

1 comment: