بلکہ قرآن بھی واضح طورپرافراط وتفریط سے منع کرتاہے،اور اپنی ذمہ داری کااحساس دلاتاہے۔ارشادربانی ہے:
          إِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤَادَ کُلُّ أُولآئکَ کَانَ عَنْہُ مَسْؤُولا۔(۴۵)
          بے شک کان اورآنکھ اوردل،ان سب سے سوال ہوگا۔(
۴۶)
خودکشی :آج کل دنیا کی مختلف جنگوں میں خلاف فطرت ایک جنگ یہ بھی ہے کہ بعض لوگ بات بات پرجھڑک اٹھتے ہیں اورغیض وغضب کی تاب نہ لاکریابے سودجانثاری کے چکرمیں زہرآلوددوااستعمال کرتے ہیں،یاچلتی ہوئی سواری کے سامنے اپنے آپ کوڈالدیتے ہیں،اورآسانی کے ساتھ اپنی جان ضائع کردیتے ہیں ، جوخودکشی ہے ،حرام ہے ، سخت حکم لاتاہے ۔
          حضرت ثابت بن ضحاک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا ہے :
          جوشخص جان بوجھ کراسلام کے علاوہ کسی دوسری ملت کی قسم کھائے تووہ ویساہی ہے جیساکہ اس نے کہا،اورجوشخص کسی لوہے سے اپنے آپ کو قتل کرے توجہنم کی آگ میں اسے اسی لوہے سے عذاب دیاجائے گا۔(
۴۷)
            یعنی خودکشی کرنے والے جہنم میں ان ہی چیزوں سے عذاب دیے جائیں گے جن سے وہ دنیا میں اپنے آپ کو ہلاک کیے تھے،مثلازہر پی کرمرنے والوں کوزہردیاجائے گا،گولی چلانے والے اپنے اوپرگولی چلاتے رہین گے،سواری یاگاڑی کے نیچے دب کرمرنے والوں پرگاڑی چلتی رہی گی ۔
قریبی رشتہ داروں کے حقوق: ان حقوق کی اہمیت کااندازہ آپ اس سے لگاسکتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے بارباران حقوق کواپنے حقوق کے ساتھ ذکرفرمایاہے۔
            حضرت عمروبن عاص رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول خداﷺنے ارشادفرمایا:
والدین کوسب وشتم کرناکبیرہ گناہوں میں سے ہے۔لوگوں نے عرض کیا:کیامردبھی اپنے والدین کوگالی گلوچ کرتاہے؟آپ نے فرمایا:ہاں،آدمی دوسرے کے ماں باب کوگالی دیتاہے تووہ بھی اس کے والدین کوگالی گلوچ کرتاہے۔(
۴۸)
          رسول اللہﷺنے فرمایا:
          اس کی ناک خاک آلودہو،اس کی ناک خاک آلودہو،اس کی ناک خاک آلودہو،پوچھاگیاکون ؟یارسول اللہ!فرمایا:جس نے اپنے والدین میں سے کسی ایک کویادونوں کو بڑھاپے میں پایا،اور(ان کوخوش کرکے)جنت حاصل نہ کی۔(
۴۹)
           حضرت عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک شخص نے کہا:یارسول اللہ!اللہ کے نزدیک سب سے بڑاکونساگناہ ہے؟آپ نے فرمایا:یہ ہے کہ تم اپنے خالق کے برارٹھہراو۔پھرعرض کیا:پھرکونسا؟ارشادہوا:یہ ہے کہ تم اپنی اولاد کواس ڈرسے قتل کروکہ وہ تمہارے ساتھ کھائیں پئیں۔عرض کیا:پھرکونسا؟آپ نے فرمایا:یہ ہے کہ تم اپنی پڑوسن کے ساتھ زناکرو۔(
۵۰)
          حضرت عائشہ رضی اللہ عنہابیان کرتی ہیں کہ رسول خداﷺنے فرمایاکہ قرابت ونسب عرش سے معلق ہے وہ کہتی ہے کہ جس نے مجھے ملایااللہ تعالیٰ اسے ملائے، اور جس نے مجھ سے قطع تعلق کیاتواللہ تعالیٰ اسے پاش پاش کرے۔(
۵۱)
           صلہ رحمی کی حقیقت یہ ہے کہ یہ ایمان کی خصوصیات میں سے ہے ،اورقطع رحم حرام ہے بے روزگاری لاتاہے،قاطع رحم جنت میں داخل نہ ہوگا۔
           حضرت عامر بن سعدرضی اللہ عنہمااپنے والدسے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا:حجۃ الوداع کے موقع پررسول اللہﷺمیری عیادت کرنے کے لیے تشریف لائے...(میں نے عرض کیا)میں مالدارآدمی ہوں،میری صرف ایک بیٹی ہے توکیامیں اپنے مال میں سے دوتہائی مال صدقہ کرسکتاہوں؟آپ نے فرمایا:نہیں میں نے عرض کیا کیانصف؟فرمایا:نہیں،ایک تہائی کرسکتے ہو،اور(یادرکھوکہ) ایک تہائی بھی زیادہ ہے۔یقیناتمہارااپنے وارثین کوغنی چھوڑنابہترہے اس سے کہ تم انھیں محتاج چھوڑو،اوروہ لوگوں  میں ہاتھ پسارے پھریں۔بلاشبہ جوکچھ بھی تم رضائے الٰہی کی خاطرخرچ کرتے ہواس پرتمہیں اجروثواب دیاجاتاہے،یہاں تک کہ تمہیں اس لقمے کابھی ثواب دیاجاتاہے جوتم اپنی بیوی کے منہ میں رکھتے ہو۔(
۵۲)
          یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوا قُوا أَنفُسَکُمْ وَأَہْلِیْکُمْ نَاراً وَقُودُہَا النَّاسُ وَالْحِجَارَۃ(۵۳)
           اے ایمان والو!اپنی جانوں اوراپنے گھروالوں کواس آگ سے بچاؤجس کے ایندھن آدمی اورپتھرہیں۔(
۵۴)
           قیامت کے ہولناک دن گھروالے سب سے پہلے اپنے مالک سے اپنے حقوق کامطالبہ کریں گے،اس لیے گھرکوصحیح ڈھنگ سے چلاناضروری ہے۔جواہل وعیال کی پرورش نہیں کرتاہے،ان کی ضروریات نظراندازکرجاتاہے،اوربال بچے ایک وقت کی روٹی کے لیے پریشان رہتے ہیں،ایسے کنبہ والے کے لیے بڑی مذمت ووعیدآئی ہے۔نبی اکرم ﷺنے ارشادفرمایا:
           لایلقی اللہ أحدبذنب أعظم من جھالۃ أہلہ۔(
۵۵)
          اس سے بڑاگناہ لے کراللہ تعالیٰ سے کوئی نہ ملے گا،جواپنے اہل و عیال سے بے خبرہو۔
         عائلی حقوق میں کوتاہی کرنے والے یاتواحساس برتری کے شکارہوتے ہیں یااحساس کمتری کے ۔لیکن جوشخص اپنے اہل و عیال کے ساتھ محبت وشفقت کے ساتھ پیش آتے ہیں،ان کی ضروریات کوخوش دلی کے ساتھ پوراکرتے ہیں،ارشادات مصطفویہ میں ان کی بڑی فضیلت آئی ہے۔جیساکہ ایک حدیث میں گزراکہ تمہارے اس لقمے میں بھی ثواب ہے جوتم اپنے ہاتھ سے اپنی بیوی کے منہ میں رکھو۔
          حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی ﷺنے فرمایا:
          افضل دیناروہ ہے جوآدمی اپنے اہل وعیال پرصرف کرتاہے،اوروہ جسے راہ الٰہی میں اپنے چوپائے پرصرف کرتاہے،اوروہ جورضائے الٰہی کی خاطراپنے اصحاب پرخرچ کرتاہے۔(
۵۶)
پڑوسی کے حقوق: اسلام میں جس طرح قرابت داروں اوررشتہ داروں کے ساتھ بہترسلوک کرنے کاحکم دیاگیاہے،اسی طرح پڑوسیوں کے ساتھ بھی حسن سلوک ہمدردی اوران کے ہرممکن تعاون کرنے کاحکم دیاگیاہے۔اوراس میں ذات پات،مذہب ومشرب کسی کابھی کوئی لحاظ نہیں رکھاگیاہے۔
           ارشادرسالت مآب ہے:
          جوکوئی اللہ اورآخرت کے دن پرایمان رکھتاہے اسے چاہیے کہ وہ اپنے ہمسائے کے ساتھ حسن سلوک کرے،جو اللہ اورآخرت کے دن پرایمان رکھتاہے اسے چاہیے کہ وہ اپنے مہمان کی عزت وتکریم کرے،جو اللہ اورآخرت کے دن پرایمان رکھتاہے اسے چاہیے کہ وہ خیرکی بات کرے یاپھرخاموش رہے۔(
۵۷)
          جس نے پڑوسی کوتکلیف دی تواس نے مجھے اذیت دی،اورجس نے مجھے اذیت دی تواس نے اللہ تعالیٰ کواذیت دی ۔اورجس نے اپنے پڑوسی سے جنگ کی تواس نے مجھ سے جنگ کی ،اورجس نے مجھ سے جنگ کی تو اس نے اللہ تعالیٰ سے جنگ کیا۔(
۵۸)
          ہمسائیوں کوخوش رکھنے کے لیے آقاعلیہ السلام اتنی زیادہ تعلیم دیتے تھے کہ صحابہ کے درمیان ’’حقوق سماج‘‘موضوع بحث بن گیاتھا،اوروہ حضرات آپس میں ایک دوسرے سے پوچھتے تھے کہ کیاہمسائیوں کووراثت سے بھی حصہ ملے گا؟خودحضورﷺنے ارشادفرمایا:
          جبرئیل علیہ السلام نے مجھے حق ہمسائیگی اس قدربتایاکہ مجھے اس بات کااحساس ہونے لگاکہ ہمسایہ کو شاید مال وراثت سے بھی حصہ ملے گا۔(
۵۹)
          اللہ! اللہ! یہ دیکھیے کتنی تاکیدکے ساتھ فرمارہے ہیں:
         اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے،کوئی بندہ اس وقت تک مسلمان نہیں ہوتاجب تک کہ لوگ اس کے دل، زبان اورہاتھ سے محفوظ نہ ہو جائیں،اورکوئی بندہ اس وقت تک مومن نہیں ہوتاجب تک کہ اس کے پڑوسی کے لوگ اس کے ظلم وستم اورمکروفریب سے محفوظ نہ ہوجائیں(
۶۰)
ایمانی حقوق ورشتے :انسانی حقوق میں بعض ایسے حقوق ہیں جن کاتعلق صرف اور صرف مومنین سے ہے،ان حقوق میں بعض وہ ہیں جوفرض وواجب ہیں اوربعض سنت واستحباب کے درجے میں ہیں ،ایسے حقوق کے بارے میں آپ نے ایک حدیث میں ،جوحضرت ابوہریرہ سے مروی ہے فرمایا:
          ایک مومن کے دوسرے مومن پر چھ حقوق ہیں:(
۱)جب وہ بیمارہوجائے تو وہ اس کی عیادت کرے ۔(۲)اورجب مرجائے تواس کے جنازے میں شرکت کرے ۔ (۳)اورجب وہ اپنی ضرورت کے لیے پکارے تواس کی پکارپرلبیک کہے۔(۴)اورجب ملاقات کرے تواسے سلام کہے۔(۵)اورجب وہ چھینک کرالحمدللہ کہے توجواب میں یرحمک اللہ کہے۔(۶)اوراس کی موجودگی وغیرحاضری ہرموقع پراس کی خیرخواہی کرے۔(۶۱)
          رسول اللہ ﷺاسلام کے قلعہ کومضبوط ومستحکم کرنے اورمسلمانوں کوایک پلیٹ فارم پرجمع کرنے کے لیے اپنی حیات ظاہری میں جن مساعی جمیلہ کااہتمام مسلسل طور پرکرتے تھے ،اوراس راہ میں انہیں جن جان لیوامصائب وآلام کاسامناکرناپڑا،اوران کوششوں کے نتیجے میں جوثمرات برآمدہوئے،تاریخ کے مطالعہ کرنے والوں سےمخفی و پوشیدہ نہیں ہیں ،ان کامقصدصرف ایک زمانے کے لوگوں کے درمیان اتحادواتفاق پیداکرنانہ تھا،بلکہ قیامت تک پیداہونے والے تمام لوگوں کومتحدکرناان کامشن تھا،اور خصوصااہل ایمان کواپنے قول وفعل کے ذریعہ ایک مرکزمیں جمع کرنے کی جوکوشش کی ہے ،اورجومفیداصول وطریقے بتائے ہیں ،اگرہم اس کوشش وجانثاری اوران اصولوں کے احترام کرنے کاجذبہ اپنے اندرپیداکرلیں تو آج بھی مختلف احوال و امنگوں کے بیچ ایک نیاانقلاب برپاہوسکتاہے۔اورایمانی رشتہ جوتمام رشتوں میں سب سے زیادہ اہم ہے ،اسے ایک نئی زندگی مل سکتی ہے ۔اس بارے میں ہمیں غوروفکرکرنے کی ضرورت ہے۔عالمی سطح پرموجودہ حالات اوربالخصوص ہمارے ملک ہندمیں آئے دن برپاہونے والے نئے نئے حالات توہمیں اس بارے میں غور وفکرکرنے اورتعلیمات مصطفویہ پرعمل پیراہونے پرمجبورکررہے ہیں۔موجودہ وقت کے ساتھ مستقبل پربھی نظررکھنااورخواب غفلت میں پڑی ہوئی قوم کوبیدارکرنے کے لیے کمربستہ ہوناسخت ضروری ہے اس باب میں سیرت مصطفی اورمعنی خیزامثال پرمشتمل ان کے اقوال ہمارے لیے معاون ثابت ہوسکتے ہیں۔
          حضرت ابوموسی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا:
         ایک مومن دوسرے مومن کے لیے عمارت کے مانندہے ،اس کابعض بعض کوتقویت پہنچاتاہے۔(
۶۲)
         جب کوئی کسی سے خوب محبت کرتاہے توکمال اتحاداورانتہا کی دوستی کی بناپرلوگ ایسی جوڑی کے بارے میں کہتے ہیں :"ایک جان دوقالب"اسی طرح مصطفی کریم ﷺ نے تمام مومنین کوایک جسم سے تشبیہ دیتے ہوئے کیاہی خوب فرمایاہے:
         مومنوں کی مثال ،ان کے الفت ومحبت ،رحم وکرم اورلطف ومہربانی کرنے میں ایک جسم کی طرح ہے،جب اس کا کوئی ایک عضوبیمارہوتاہے توساراجسم اس کی طرف مائل ومتوجہ ہوجاتاہے ،اوربیداررہتاہے ،بخارکی تپیش وشدت کوبرداشت کرتاہے۔(
۶۳)
          ہمارایہ ایمانی وروحانی رشتہ جب اتنااہم ہے توہمیں ایک دوسرے مسلمان بھائی پرظلم وستم کرنے،اسے کسی ظالم وجابرکے حوالے کرنے سے پرہیزکرناچاہیے ،جب کسی مسلمان کوکسی کی طرف سے کوئی اذیت پہنچے توہمیں اس کی امدادوحمایت کرنی چاہیے ،اوراس کے غم میں برابرکاشریک ہوناچاہیے۔
          صحیح البخاری ،صحیح لمسلم اورسنن أبی داؤدمیں حضرت سالم اپنے والدسے روایت کرتے ہیں کہ رسول للہﷺفرماتے ہیں:
          ایک مسلمان دوسرے مسلمان کابھائی ہے ،نہ تووہ اس پرظلم وستم کرتاہے،اورنہ ہی کسی ظالم کے حوالے کرتاہے۔اورجواپنے بھائی کی حاجت پوری کرتاہے تواللہ تعالیٰ اس کی حاجت پوری کرتاہے ،اورجوکسی مسلمان سے کوئی مصیبت دورکرتاہے تواللہ تعالیٰ اس کے طفیل قیامت کی سختیوں میں سے بعض سختی کواس سے دورکردے گا،اورجوکسی مسلمان کی پردہ پوشی کرتاہے تواللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی پردہ پوشی فرمائے گا۔(
۶۴)
          حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا:
آپس میں بغض وحسدنہ کرو،ایک دوسرے سے پیٹھ نہ پھیرو،اے اللہ کے بندو!آپس میں ایک دوسرے کے بھائی بھائی ہوجاؤ۔کسی مسلمان کے لیے کسی مسلمان بھائی سے تین دن سے زیادہ قطع تعلق کرلیناجائزنہیں ہے۔(
۶۵)
          جوکسی مسلمان کی جان ومال،عزت وآبروکونشانہ بناکراسے ذلیل ورسواکرتاہے تواللہ تعالیٰ اسے بھی ذلیل وخوارکرتاہے،اورجوکسی مسلمان کوقتل کرتاہے تووہ بہت ہی براہے،اس کاٹھکانہ جہنم ہوگا۔
         حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں نبیﷺسے کہ ہرمسلمان کی جان و مال،اورعزت وآبروحرام ہے دوسرے مسلمان کے لیے ۔کسی آدمی کے براہونے کے لیے اتناکافی ہے کہ وہ کسی مسلمان بھائی کی توہین کرے۔(
۶۶)
راعی ورعایا کے حقوق: راعی کااطلاق ہراس شخص پرہوتاہے جوکسی بھی امرکی حفاظت کاوالی و ذمہ دارہو، خواہ وہ والی حاکم وسلطان ہو ،یاسیاسی لیڈرو حکمراں ،یاکسی بھی ادنیٰ چیزکانگہبان ۔ اس کاصحیح مفہوم ومطلب درج ذیل حدیث کی روشنی میں ملاحظہ فرمائیں۔
          حضرت سالم اپنے والدعبداللہ بن عمررضی اللہ عنہم سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے رسول خداﷺکوفرماتے سناکہ تم میں سے ہرایک راعی ونگہبان ہے اس سے اپنی رعیت کے بارے میں محاسبہ ہوگا:لہذابادشاہ اپنی رعیت کاراعی و نگہبان ہے ،اس سے اس کی رعیت کے بارے میں بازپرس ہوگی،اورآدمی اپنے گھروالوں کاراعی ونگراں ہے اس سے ان کے بارے میں پوچھ گچھ ہوگی ،عورت اپنے شوہرکے گھر کی راعی و نگراں ہے اس سے اس کے بارے میں حساب لیاجائے گا،اورغلام اپنے آقاکے مال کاراعی ونگراں ہے وہ اس کا جواب دہ ہوگا۔(
۶۷)
          معقل بن یسارسے مروی ہے کہ نبی ﷺنے فرمایا:
           جوشخص کسی رعیت کاراعی ونگہبان بنایاجائے اوروہ ا ن کے لیے خیر خواہ ثابت نہ ہوتو وہ جنت کی خوشبو بھی نہ سونگھ سکے گا۔(
۶۸)
         یعنی جوراعی اپنے حدود میں رہتے ہوئے اپنی رعیتوں کے لیے عدل وانصاف قائم نہ کرے ،ان کوان کے حقوق سے محروم کردے ،ان کی زیرنگرانی رہنے والے لوگ اس کے ظلم وستم کے شکارہوں تووہ حاکم وحکمراں،سلطان وبادشاہ ہوتے ہوئے بھی غداروستم کارہوگا،اللہ تعالیٰ نے اس پرآخرت کی آسائش کوحرام فرمادیاہے ،وہ جنت کی خوشبو بھی  نہ سونگھ سکے گا۔موجودہ دور کے حکمراں طبقہ اپنی راحت وآرام کے لیے سب کچھ مہیاکرلیتاہے ،اوراس کے برعکس اپنی رعیت سے بے خبری وبے فکری ان کاشعاربن چکی ہے ،اگریہ طبقہ صرف نظام عدل وانصاف قائم ونافذکردے تودنیاسے ہرطرح کے ظلم وستم کاخاتمہ ہوسکتاہے۔
جانوروں کے حقوق: اللہ تعالیٰ کی بے شمارمخلوقات میں ایک طبقہ جانوروں کابھی ہے،جنہں اللہ تعالیٰ نے انسانوں کے لیے پیدافرمایاہے، انسان ان سے اپنی ضروریات کی تکمیل کرتاہے۔اللہ کے رسول ﷺنے جس طرح انسانی حقوق کادرس دیاہے اسی طرح جانوروں کے حقوق کو بھی واضح طورپربیان فرمایاہے،اوران کے ساتھ بہترسلوک کرنے کاحکم دیاہے۔
          ان بے زبان جانوروں کے سلسلے میں اللہ سے ڈرواورمناسب طریقے سے ان پرسواری کرو،اورمناسب طریقے سے ان کو چھوڑدو۔(
۶۹)
         روایتوں میں ملتاہے کہ آپ نے مختلف چوپائے پر سواری کی ہے ،آپ اپنے دست مبارک سے ان کی خدمت کرتے تھے ،اوران کو ذرہ برابر تکلیف پہنچنابرداشت نہیں کرتے تھے آپ کے رحم وکرم کامعاملہ یہ تھا کہ انسان تو انسان جانوربھی آپ کی بارگاہ اقدس میں فریادی بن کراپنی مظلومیت کااظہارکرتے تھے اورآپ ان کی پریشانیوں کو حل فرماتے تھے ۔
           حضرت عبداللہ بن جعفرسے مروی ہے کہ نبیﷺایک بارایک انصاری کے باغ میں داخل ہوئے،تواچانک آپ نے ایک اونٹ کوہنہناتے ا ورروتے ہوئے دیکھا،آپ اس کے پاس آکراس پراپنادست شفقت پھیراتووہ خاموش ہوگیا،پھرآپ نے فرمایا:اس اونٹ کامالک کون ہے؟،یہ کس کااونٹ ہے؟توایک جوان انصاری آیا اوراس نے کہاکہ میراہے یارسول اللہ!آپ نے ارشادفرمایا:کیاتم ان بے زبان مویشی کے بارے میں اللہ تعالیٰ سے خوف نہیں کھاتے ہو جن کااللہ تعالیٰ نے تمہیں مالک بنایاہے،اس نے مجھ سے شکایت کی ہے کہ تم اسے بھوکاپیاسارکھتے ہو،اوراس سے خوب محنت لے تے ہو۔(
۷۰)
معاشرت
            معاشرت کہتے ہیں ایک ساتھ مل کر زندگی بسرکرنے کو،جوانسانی زندکاایک لازمی حصہ ہے،معاشرے کاہرانسان اپنی پیدائش سے لے کراپنی موت تک ایک دوسرے کامحتاج رہتاہے ،یعنی معاشرہ آپسی تعاون وہمدردی کاتقاضاکرتاہے،خواہ شہری معاشرہ ہو یادیہاتی،ہرمعاشرہ افرادواشخاص سے تیارہوتاہے،معاشرے کی ترقی وکامیابی اورتنزلی و ناکامی کامدارافرادکے اچھے برے ہونے پرہے،جومعاشرہ جس قدرفسادسے دوراوراصلاح سے قریب ہوگااس قدروہ معاشرہ ترقی کی شاہ راہ پرگامزن رہے گا،اس کے لیے ضروری ہے کہ تمام لوگ ایک دوسرے کے بارے میں حسن ظن رکھیں،دوسرے کے کاموں میں بے جامداخلت نہ کریں،بلکہ تعاون وہمدردی ،صلاح ومشورہ سے سب کو شادو آبادرکھیں۔آقاعلیہ السلام نے معاشرے کوپرامن وترقی پذیربنانے کے لیے بہت سارے فارمولے عنایت کیے ہیں۔
            سماج میں رہنے والاانسان فطری ودائمی طورپرمتعددایسی چیزوں کاسامناکرتارہتاہے جن سے دامن چھڑانامحال ہے جیسے چھینک،جماہی ،وضع قطع،آپسی مل جل،اجتماعی وانفرادی مرسم ورسم ورواج وغیرہ۔جماہی شیطان کی طرف سے ہے،اورچھینک اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے ،جو تمام انسانوں کے لیے رب کی طرف سے ایک بہت بڑی نعمت ہے ہم اگران دونوں کے آداب کوبجالائیں تواس کاایک اچھااثرپڑے گا۔
          چھینک اورجماہی کے بارے میں نبیﷺارشادفرماتے ہیں:
          یقیناًاللہ تعالیٰ چھینک کوپسندفرماتاہے ،اورجماہی کو ناپسندکرتاہے ،توجب تم میں سے کسی کوجماہی آئے توجہاں تک ہوسکے وہ اسے روکے اورہاہ ہاہ نہ کہے،اس لیے کہ یہ شیطان کی طرف سے ہے ،وہ اس سے ہنستاہے ۔(
۷۱)
          حضرت ابو ہریرہ نبی ﷺسے روایت کرتے ہیں کہ جب تم میں سے کسی کو چھینک آئے تواسے الحمدللہ کہناچاہیے ،اوراس کے ساتھی کویرحمک اللہ کہناچاہیے،اورچھینکنے والے کوجواباکہناچاہیے،یہدیکم اللہ ویصلح بالکم۔(
۷۲)
           سلام ومصافحہ ،اورملنے جلنے کے آداب وطریقے کواگرعام کیاجائے تومعاشرہ خودبہ خودبہتر سے بہترہوسکتاہے۔
         حضرت عبداللہ بن عمروسے مروی ہے کہ ایک صاحب نے اللہ کے رسولﷺسے دریافت کیا:کونسااسلام بہترہے؟آپ نے فرمایا:یہ ہے کہ تم کھاناکھلاؤ،اورسلام کرو اسے جسے جانتے ہواوراسے بھی جسے نہیں جانتے ہو۔(
۷۳)
         محبت کے بنیادی عنصرسلام کوبتایاگیاہے،اوراس میں اضافہ کے لیے اسلام نے مصافحہ کاطریقہ دیاہے ،مصافحہ متعددصحیح حدیثوں سے ثابت ہے ،لیکن اس کے باوجوداس دور میں کچھ لوگ اس کاانکارکرتے ہیں اوراس سے منع کرکے لوگوں کوایک احسن طریقہ سے دورکرتے ہیں۔
        حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول خداﷺنے فرمایا:
        جب دومسلمان ملاقات کے وقت مصافحہ کریں،اوراللہ تعالیٰ کی حمدوثنابجالائیں،اوراس سے استغفارکریں تواللہ تعالیٰ ان دونوں کوبخش دیتاہے۔(
۷۴)
          حضرت براء ہی سے دوسری حدیث میں آیاہے کہ حضورﷺنے فرمایا:
         ایسانہیں ہے کہ دومسلمان آپس میں ملتے وقت مصافحہ کریں،اوراللہ تعالیٰ ان کے جداہونے سے قبل ان دونوں کے سابقہ گناہوں کومعاف نہ فرمائے۔(
۷۵)
         یہ تواخوت ومحبت کے دوطریقے تھے جن پرقدیم زمانے سے عمل درآمد ہے ،ان کے علاوہ ایک اورطریقہ ہے جوآپ کے روزمرات میں شامل تھااوروہ ہے معانقہ ۔
       قبیلہ عنزہ کے ایک صاحب نے حضرت ابوذرسے پوچھاکہ کیارسول اللہ ﷺتم سے مصافحہ کرتے ہیں ،جب تم ان سے ملاقات کرتے ہو،انہوں نے کہا:جب بھی مجھے ان سے ملاقات کاشرف حاصل ہواتوانہوں نے مجھ سے مصافحہ کیا،ایک مربتہ انہوں نے میری طرف ایک قاصدبھیجااوراتفاق سے میں گھرمیں موجودنہ تھاجب میراگھرآناہوا تو مجھے اس کی خبردی گئی اورمیں بارگاہ اقدس میں حاضرہوا،اوروہ اپنی تخت پرجلوہ فرماتھے،توانہوں نے مجھے چمٹالیا،جوسب سے عمدہ تھا،جوسب سے زیادہ بہترتھا۔(
۷۶)
دعوت وطعام:حضورﷺبغیر کسی امتیازوتفریق کے ہرامیروغریب کی دعوت قبول فرماتے ،اورخوش دلی کے ساتھ تشریف لے جاتے تھے،بسااوقات ہدایا وتحائف بھی ساتھ لے جاتے تھے ۔حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہماسے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا:
           جسے دعوت دی گئی اوراس نے قبول نہ کیاتواس نے اللہ اوراس کے رسول کی نافرمانی کی ،اورجوبغیردعوت کے چلاگیاتووہ سرقہ بازی کرتے ہوئے داخل ہوااورغارت کرتے ہوئے نکلا۔(
۷۷)
          آپ کے کھانے کاطریقہ یہ تھاکہ کھاناتناول فرمانے پہلے اپنے دونوں ہاتھوں کوگٹوسمیت دھولیتے تھے پھردسترخوان پرتشریف لے جاتے،اوراللہ کانام لے کرشروع فرماتے،اورجو بھی میسرہوتاآپ اسے تناول فرماتے ،اورجب اٹھتے توشکرانے کے طورپراللہ تعالیٰ کی حمدوثنابجالاتے،مل جل کرکھاناآپ کوبہت پسندتھا۔
          آپ فرماتے ہیں کہ مل کرکھایاکرو،اوراللہ کے نام سے ابتداکرو،اللہ تعالیٰ تمہارے لیے تمہارے کھانے میں برکت دے گا۔(
۷۸)
         چلنے پھرنے اوراٹھنے بیٹھنے کے آداب: حضرت فاروق اعظم ، حضرت علی مرتضی اور حضرت ابوہریرہ جیسے کبارصحابہ بیان کرتے ہیں کہ آقاعلیہ السلام جب چلتے توقدم جماکررکھتے اورپوری قوت کے ساتھ اٹھاتے ،اتناتیز چلتے کہ بسااوقات ساتھ والے پیچھے پڑجاتے تھے ،قدم رکھنے کایہ اندازتھاکہ گویاآپ کسی زینہ سے اتررہے ہیں ،یعنی مکمل وقارکے ساتھ چلتے تھے ۔
         حضرت علی مرتضی رضی اللہ عنہ نے حضورﷺکی سرعت رفتاربیان کرتے ہوئے فرمایا:
         ’’رحمت عالم ﷺجب چلاکرتے تویوں معلوم ہوتاکہ بلندی سے نشیب کی طرف جارہے ہیں،اورجب حضورﷺچلاکرتے تو قدم جماکررکھتے جس سے پتہ چلتاکہ حضور جلدی میں نہیں ہیں ‘‘۔(
۷۹)
          با ادب معاشرے کی خوبیوں میں سے یہ ہے کہ لوگ آداب مجلس کوبجالاتے ہیں،بڑوں کو ان کامرتبہ دیتے ہیں ،مجلس میں آنے والوں کے لیے جگہ کشادہ کرتے ہیں ،اس کی مکمل تعلیم ہمیں آپ کے طورطریقے میں بھی ملتی ہے ،آپ جب کسی مجلس میں تشریف لے جاتے تو جہاں جگہ ملتی وہی بیٹھ جاتے تھے،اوراگرکوئی آتاتو خود اس کے لیے جگہ کشادہ کردیتے تھے،آداب مجلس کی بھررعایت کرتے تھے،افہام وتفہیم کے لیے صاف صاف کلام فرمایاکرتے تھے اورایک بات کوبارباردہراتے تھے،
          آپ سے مروی ہے کہ کسی بھی شخص کے لیے یہ جائزنہیں کہ دوآدمی کے درمیان ان کی اجازت کے بغیرتفریق ڈالے۔(
۸۰)
          حضرت عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہماسے مروی ہے کہ رسول خداﷺنے فرمایا:
         کوئی آدمی کسی شخص کواٹھاکراس کی جگہ نہ بیٹھے ،ہاں جگہ کشادہ کرو،تمہارے لیے جگہ کشادہ کی جائے گی۔(
۸۱)
            چلتے پھرتے ،اٹھتے بیٹھتے دعاوذکرالٰہی آپ کی عادت کریمانہ تھی،ایسی مجلس میں بیٹھنانا پسندکرتے جس میں ذکرالٰہی کوترک کردیاجائے۔
            حضرت ابوہریرہ سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا:
           کوئی ایسی قوم نہیں ہے جوکسی مجلس سے اٹھے اوراس میں اللہ کاذکرنہ کرے مگروہ بدبودارمردارگدھے کی طرح اٹھتی ہے ،اوراس قوم پر حسرت ہے۔(
۸۲)
           اسی طرح آداب مجلس سے یہ ہے کہ لوگ مجلس میں ہونے والی باتوں کے امین ہوتے ہیں ۔آپ فرماتے ہیں :
             کوئی بھی کسی کے بارے میں مجھے کچھ نہ بتائے ،یقیناًمیں چاہتاہوں کہ میں اس حال میں گھرسے نکلوں کہ میرادل خوش رہے۔(
۸۳)
           اسی طرح حسن معاشرت سے یہ ہے کہ لوگ ایک دوسرے کے تجسس وجاسوسی میں نہ لگیں،ان کی برائی نہ کریں،فحش نہ بکیں،جہالت وحماقت اورکمینگی وشرارت سے اجتناب کریں،گفتگو کرے تونرمی کو لازم پکڑیں ،تاکہ دوسروں کے لیے سنناسمجھنااوران پرعمل کرناآسان ہو ایسے ہی ان کوچاہیے کہ اپنے وضع قطع کودرست رکھیں ،باطنی امراض کے ساتھ ظاہری گندگیوں سے بھی بچیں،کہ دوسرے افرادگھن محسوس نہ کریں،نفرت کی آگ نہ پھیلائیں،آسانیاں پیداکریں،سختیوں کودورکرنے کی کوشش کریں ۔
           حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ تعالیٰ روایت کرتے ہیں کہ آپ جب کسی کوکسی کام کے لیے بھیجتے توہدایت فرماتے تھے کہ بشارت وخوشخبری دو،نفرت نہ پھیلاؤ،آسانیاں پیداکرو،سختیاں دورکرو۔(
۸۴)
          ان حقوق کے علاوہ مقدمات وفیصلے ،لین دین ،بیع وشرا،ناپ تول ،صلح ومفاہمت اورکسب معاش کے امورومعاملات اسی قسم میںآتے ہیں،مذکورہ بالا ارشادات وتعلیمات کی روشنی میں ان ہدایات وتعلیمات کی اہمیت کااندازہ بخوبی لگایاجاسکتاہے جوحضورﷺ سے ان ابواب میں مروی ہیں۔اسی طرح احادیث وسنن میں طہارت وپاکیزگی ،ریاضت ومجاہدہ ،توبہ واستغفاراوراصلاح ظاہروباطن پرمشتمل جملہ شعبہائے حیات کے تعلق سے تعلیمات وہدایات موجودہیں،جن پرچل کرہردورکاآدمی فطری تقاضوں کے باوجود کامیاب وکامراں ہوسکتاہے۔خطبہ حجۃ الوداع کے موقع پرآپ نے قیامت تک پیداہونے والے سارے انسانوں کوجواخوت ومحبت ،عدل وانصاف اورمساوات وبرابری کادرس دیاہے ،اور اونچ نیچ کے سارے معیاروں کوختم کرکے صرف تقویٰ کومعیارارتقاقراردیاہے ،وہ یقیناہمارے لیے قابل عمل ہے۔اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق سے نوازے۔آمین
                                                                                                                                                             محمدشاہدرضاقادری            
                                                                                                                                  البرکات اسلامک ریسرچ اینڈٹرینینگ انسٹی ٹیوٹ ،جمال پور،علیگڑھ،یوپی        







No comments:

Post a Comment