Abu talib

اقول : ویتراأی لی استثناء من ابھم وقدعلم من عادتہ انہ لایروی الا عن ثقۃ کامامنا الاعظم والا مام احمد وغیرھما ممن سمیناھم فی "منیرالعین " فان المبھم امام من مجھول الحال او کمثلہ وقدصرحوا فیہ بھذا التفصیل قال فی الکتابین (فی روایۃ العدل ) عن المجہول (مذاہب) احدھا (التعدیل) فان شان العدل لایروی الاعن عدل (و) الثانی (المنع ) لجواز روایتہ تعویلا علی المجتھدانہ لایعمل الا بعد التعدیل (و) الثالث (التفصیل بین من علم) من عادتہ (انہ لایروی الاعن عدل) فیکون تعدیلا (اولا) فلا (وھو) ای الثالث (الاعدل ) وھو ظاھر ۱؂ اھ باختصار۔

اقول :( میں کہتا ہوں) میرے لیے اُس شخص کا استثناء ظاہر ہوا جس نے ابہام کیا حالانکہ اس کی عادت معروف ہے کہ بغیر ثقہ کے کسی سے روایت نہیں کرتا جیسا کہ ہمارے امام اعظم اور امام احمد اور دیگرائمہ کرام جن کے نام ہم نے "منیر العین" میں ذکر کیے ہیں۔اس لیے کہ مبہم مجہول الحال سے ہوگا یا اس کی مثل سے تحقیق اس میں علماء نے اس تفصیل کے سات تصریح فرمائی ہے، دونوں کتابوں میں کہا کہ مجہول سے عادل کی روایت کے بارے میں چند مذہب ہیں، ان میں سے ایک مذہب اس کی تعدیل ہے، کیونکہ عادل کی شان یہ ہے کہ وہ فقط عادل سے روایت کرتا ہے۔ دوسرا مذہب منع تعدیل ہے کیونکہ ہوسکتا ہے اس نے متجہد پر بھروسا کرتے ہوئے یہ روایت کرتی ہو کیونکہ مجتہدتعدیل کے بعد ہی عمل کرتا ہے، اور تیسرا مذہب تفصیل یعنی اگر اس کی یہ عادت معلوم ہے کہ وہ فقط عادل سے روایت کرتا ہے غیر عادل سے نہیں، تو تعدیل ہوگی ورنہ نہیں، اور یہ تیسرا مذہب زیادہ عدل والا ہے اور وہ ظاہر ہے اھ اختصار۔

 ( ۱ ؎ فواتح الرحموت شرح مسلم الثبوت بذل المستصفٰی مسئلہ مجہول الحال الخ   منشورات الشریف الرضی قم ایران   ۲ /۱۵۰)
ثالثھا : لیس الحکم علی کافر معلوم الکفرلاسیما المدرک صحۃ لغویۃ بطریان الاسلام من باب الفضائل المقبول فیہ الضعاف باتفاق الاعلام، کیف وانہ یبتنی علیہ کثیر من الاحکام کتحریم ذکرہ الابخیر و وجوب تعظیمہ بطلب الترضی علیہ اذا ذکر بعد ماکان ذاک حراما بل ربما المنجرالی الکفر، والعیاذ باﷲ تعالٰی، وقبول قولہ فی الروایات ان وقعت الی غیر ذلک والیقین لایزول الشک والضعیف لایرفع الثابت وانما السرفی قبول الضعاف حیث تقبل انہا ثمہ لم تثبت شیئا لم یثبت کما حققناہ بما لامزید علیہ  مادفع الاوھام المتطرقۃ الیہ فی رسالتنا "الھادا الکاف فی حکم الضعاف " فاذا لم تکن لتثبت مالم یثبت فکیف ترفع ماقدثبت ماھذا الاغلط وشطط وھذا واضح جدا فاتضح بحمد اﷲ ان الروایۃ ضعیفۃ واھیۃ وانہا فی اثبات ماریم منھا غیر مغنیۃ ولا کافیۃ ھکذا ینبغی التحقیق واﷲ تعالٰی ولی التوفیق۔
تیسرا امر : جس کافر کا کفر معلوم ہو خصوصاً جب کہ وہ صحت لغویہ کو پانے والا ہو۔ اُس پر اسلام کے طاری ہونے کا حکم از قبیل فضائل نہیں ہے جس میں باتفاق علماء ضعیف حدیثیں بھی مقبول ہیں، ایسا کیونکر ہوسکتا ہے جب کہ اس پر بہت سے احکام کی بنیاد ہے مثلاً بھلائی کے سوا اس کے ذکر کا حرام ہونا، اس کی تعظیم کا واجب ہونا اور اس کے ذکرکے ساتھ رضی اللہ تعالٰی عنہ کہنا، بعد اسکے یہ حرام بلکہ بسا اوقات کفر تک پہنچادینے والی چیز ہے، اور اﷲ تعالٰی کی پناہ ، اور روایات میں اس کے قول کو قبول کرناجب کہ واقع ہوں وغیرہ ذلک ، حالانکہ یقین شک کے ساتھ زائل نہیں ہوتا، اور ضعیف حدیث ثابت کو رفع نہیں کرسکتی، ضعیف حدیثیں جہاں قبول کی جاتی ہیں وہاں ان کو قبول کرنے میں راز یہ ہے کہ وہاں ضعیف حدیثیں کسی غیر ثابت چیز کو ثابت نہیں کرتیں جیسا کہ ہم اپنے رسالہ " الھاد الکاف فی حکم الضعاف"میں اس کی تحقیق کردی ہے جس پر زیادتی نہیں کی جاسکتی جس نے اس مسئلہ میں پیدا ہونے والے تمام وہموں کا ازالہ کردیا ہے، چنانچہ جب وہ ضعیف حدیثیں غیر ثابت چیز کو ثابت نہیں کرسکتی ہیں تو ثابت شدہ چیز کو رفع کیسے کرسکیں گی۔ یہ محض غلط اور حق سے دُوری ہے، یہ خوب واضح ہے۔ بحمداﷲ واضح ہوگیا کہ روایت مذکورہ ضعیف اور بے ہودہ ہے اور اس سے جس مقصد کو ثابت کرنا مطلوب تھااسکے لیے یہ مفید و کافی نہیں ہے۔ یونہی تحقیق چاہیے اور اﷲ تعالٰی توفیق کا مالک ہے۔(ت)

ثانیا اگر بالفرض صحیح بھی ہوتی تو ان احادیث جلیلہ جزیلہ صحاح اصح کے مخالف تھی لہذا مردود ہوتی نہ کہ خود صحیح بھی نہیں اب اُن کے مقابل کیا التفات کے قابل اقول جواب اول بنظر سند تھا یہ بلحاظ متن ہے یعنی اگر سنداً صحیح بھی ہوتی تو متناً شاذ تھی اور ایسا شذوذ قاوح صحت یوں بھی ضعیف رہتی اب کہ سنداً بھی صحیح نہیں خاص منکر ہے اور بہرحال مردود و نامعتبر، یہ جواب بھی علمائے ممدوحین نے دیا اور امام قسطلانی و شیخ محقق نے بھی اس کی طرف اشارہ کیا۔

خمیس  میں بعد عبارت مذکورہ امام بیہقی سے ہے  :والصحیح من الحدیث قد اثبت لابی طالب ابوفاۃ علی الکفر والشرک کما رویناہ فی صحیح البخاری۱؂ ۔یعنی حدیث صحیح ابو طالب کا کفر وشرک پر مرنا ثابت کررہی ہے جیسا کہ صحیح بخاری میں موجود۔

 ( ۱ ؎ تاریخ الخمیس فی احوال انفس نفیس وصیت ابی طالب   مؤسسۃ شعبان للنشربیروت         ۱ /۳۰۰)

بعنیہ اسی طرح مواہب میں ہے۔
عمدہ میں بعد عبارت مذکورہ اور زرقانی میں امام حافظ الشان سے ہے :ولوکان صحیحا العارضہ حدیث الباب لانہ اصح منہ فضلا عن انہ لم یصح ۔۱؂اگر یہ صحیح بھی ہوتی تو اس باب میں وارد حدیث اس کے معارض ہوتی کیونکہ وہ اس سے اصح ہے چہ جائیکہ یہ صحیح ہی نہیں ۔(ت)

 ( ۱ ؎ عمدۃ القاری کتاب مناقب الانصار     حدیث ۳۸۸۳    دارالکتب العلمیہ بیروت    ۱۷ /۲۳)
(شرح الزرقانی علی المواہب اللدنیہ   المقصد الاول      دارالمعرفۃ بیروت     ۱ /۲۹۳)

اصابہ میں بعد کلام سابق ہے :وعلی تقدیر ثبوتھا فقد عارضہا ماھواصح منہا ۲؂ ۔اور اس کے ثبوت کی تقدیر پر وہ حدیث اس کے معارض ہے جو اس سے اصح ہے۔(ت)

 ( ۲ ؎ الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ      حرف الطاء    القسم الرابع     دارصادر بیروت        ۴ /۱۱۶)

پھر حدیث دوم لکھ کر فرمایا  :فھذا ھوالصحیح الذی یردالروایۃ التی ذکرھا ابن اسحٰق۳؂ ۔یہ حدیث صحیح روایت ابن اسحاق کو رَد کررہی ہے۔

۳ ؎ الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ         حرف الطاء    القسم الرابع     دارصادر بیروت        ۴ /۱۱۷)

شرح ہمزیہ کی عبارت اوپر گزری:صرائح الاحادیث المتفق علی صحتہا ترد ذٰلک ۴؂ ۔صریح حدیثیں جن کی صحت پر اتفاق ہے اسے رَد کررہی ہیں۔

 ( ۴ ؎ شرح ھمزیۃ)

مدارج النبوۃ میں ہے :  دراحادیث و اخبار اسلام دے ثبوت نیافتہ جزانچہ درروایت ابن اسحق آمدہ کہ وے اسلام آور د نزدیک بوقتِ مرگ و گفتہ کہ چوں قریب شد موت وے و عباس گفت یا ابنَ اخی ! واﷲ بتحقیق گفت برادر من کلمہ را کہ امرکردی تو او رابداں کلمہ و درروا تیے آمدہ کہ آنحضرت گفت من نشنیدم باآنکہ حدیث صحیح اثبات کردہ است برائے ابوطالب کفر را ھ مختصراً ۱؂۔اخبار و احادیث میں ابوطالب کا اسلام ثابت نہیں ہوا سوائے اُس روایت کے جو ابن اسحاق سے مروی ہے کہ وہ وقتِ موت کے قریب اسلام لے آئے تھے ابن اسحاق نے کہا کہ جب ابوطالب کا وقت موت قریب ہوا تو حضرت عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ نے کہا : اے میرے بھیتجے ! بخدا میرے بھائی نے وہ کلمہ کہہ دیا ہے جس کا آپ نے اس کو حکم دیا ہے، ایک روایت میں آیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا میں نے نہیں سنا باوجود یہ کہ حدیث صحیح نے کفر ابوطالب کو ثابت کردیا ہے اھ اختصار (ت)

 ( ۱ ؎ مدارج النبوۃ      باب دوئم وفات یافتن ابوطالب      مکتبہ نوریہ رضویہ سکھرپاکستان    ۲ /۴۸)یہ کلام حضرت شیخ رحمہ اﷲ تعالٰی کا ہے اور فقیر غفر اﷲ تعالٰی لہ نے یہاں ہامش مدارج پر اپنے دو حاشیے لکھے پائے جن کی نقل خالی از نفع نہیں۔

" اوّل قول شیک جز آنچہ درروایت ابن اسحٰق آمدہ بربریں عبارت اقول ایں استثناء منقطع ست ائمہ فن ہمچوامام بیہقی وامام ابن حجر عسقلانی و امام عینی و امام ابن حجر مکی وغیرھم تصریح کردہ اند بضعف ایں روایت زیرا کہ درو راوی مبہم واقع شدہ باز بمخالف صحاح منکر ست وشیخ در آخر کلام خود ارشارہ بضعف او میکندکہ با آنکہ حدیث صحیح اثبات کردہ است الخ معلوم شد کہ ایں صحیح نیست ،۔

اوّل شیخ کے قول" جز آنچہ در روایت ابن اسحٰق آمدہ"پر اس عبارت کے ساتھ حاشیہ لکھا :میں کہتا ہوں یہ استثناء منقطع ہے۔ائمہ فن جیسے امام بیہقی ، امام ابن حجر عسقلانی، امام عینی اور امام ابن حجر مکی وغیرہ نے اس روایت کے ضعیف ہونے کی تصریح کی ہے کیونکہ اس میں ایک راوی مبہم واقع ہوا ہے ، پھر صحیح حدیثوں کی مخالفت کی وجہ سے منکر ہے، اور شیخ علیہ الرحمہ اپنے کلام کے آخر میں ان لفظوں کے ساتھ اس کے ضعف کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ " باوجود یہ کہ حدیث صحیح نے اس کے کفر کو ثابت کردیا ہے" معلوم ہوگیا کہ یہ حدیث صحیح نہیں ہے۔

دوم قوم شیخ ودر روایتے آمدہ پر بایں الفاظ اقول ایں لفظ ایہام میکندآں راکہ ایں جادو روایت ست وروایت مذکورہ ابن اسحٰق عاری ست از ذکر رَد فرمودن نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم بقول مبارکش لم اسمع حالانکہ نہ چنان ست بلکہ ایں تتمہ ہماں روایت ابن اسحٰق ست بریں معنی آگاہ بایدبود۱؂ ۔
دوم : شیخ کے قول" و درروایتے آمدہ"پر ان الفاظ کے ساتھ حاشیہ لکھا : میں کہتا ہوں یہ وہم میں ڈالتا ہے کہ یہاں دو روایتیں ہیں، اور روایت ابن اسحٰق میں نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے یہ کلماتِ رَد نہیں ہیں کہ " میں نے نہیں سُنا" حالانکہ ایسا نہیں ہے بلکہ یہ اسی روایت ابن اسحٰق کا تتمہ ہے، اس معنی پر آگاہ ہونا چاہیے۔(ت)
 (۱؂ )
ثالثاً خود قرآنِ عظیم اسے رَد فرمارہا ہے اگر اسلام پر موت ہوتی سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو استغفار سے کیوں ممانعت آئی۔ یہ جواب حافظ الشان کا ہے اور اُسے خمیس میں بھی ذکر کیا۔
اصابہ میں بعد عبارت مذکورہ قریبہ ہے :" اذلوکان قال کلمۃ التوحید مانھی اﷲ تعالٰی نبیہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم عن الاستغفار لہ۔۲؂اگر اس نے کلمہ توحید کہہ لیا ہوتا تو ا ﷲ تعالٰی اپنے نبی کو اُس کے حق میں استغفار سے منع نہ فرماتا ۔(ت)
۲ ؎الاصابۃ      فی تمییز الصحابۃ        حرف الطاء     القسم الرابع ابوطالب            دارصادر بیروت        ۴ /۱۱۷)
اقول : استغفار سی نہی کفر میں صریح نہیں حضور سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ابتدائے اسلام میں میت مدیون کے جنازہ پر نماز پڑھنے سے ممنوع تھے۔علمائے متاخرین نےحدیث استاذنت ربی ان استغفرلا می فلم یا ذن لی ۔۳؂ (میں نے اپنے رب سے اذن طلب کیا کہ میں اپنی ماں کے لیے استغفار کروں تو اُس نے مجھے اذن نہ دیا۔ت)
کا یہی جواب دیا ہے استدلال اسی آیت کریمہ کے لفظ للمشرکین و لفظ اصحٰب الجحیم سے اولٰی وانسب ہے اگر کلمہ اسلام پر موت ہوتی تو رب العزۃ ابو طالب کو مشرک کیوں بتاتا، اصحابِ نار سے کیوں ٹھہراتا۔ لاجرم یہ روایت بے اصل ہے۔
 ( ۳ ؎ صحیح مسلم     کتاب الجنائز        فصل فی جواز زیارۃقبور المشرکین الخ        قدیمی کتب خانہ کراچی    ۱ /۳۱۴)
رابعاً اقول : اس میں ایک علّت اور ہے، حدیث صحیح چہارم دیکھئے خود یہی عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ جن سے یہ حکایت ذکر کی جاتی ہے موت ابی طالب کے بعد حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے پوچھتے ہیں۔ یارسول اﷲ ! حضور نے اپنے چچا ابوطالب کو بھی کچھ نفع دیا وہ حضور کا غمخوار طرفدار تھا ارشاد ہواہم نے اُسے سراپا جہنم میں غرق پایا اتنی تخفیف فرمادی کہ ٹخنوں تک آگ ہے میں نہ ہوتا تواسفل السافلین اس کا ٹھکانا تھا۔۔۴؂ ( ۴ ؎ صحیح البخاری     مناقب الانصار    باب قصّہ ابی طالب     قدیمی کتب خانہ کراچی    ۱ /۵۴۸)
(صحیح مسلم    کتاب الایمان    باب شفاعۃ النبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم لابی طالب     قدیمی کتب خانہ کراچی  ۱ /۱۱۵)
(مسند احمد بن حنبل     عن العباس        المکتب الاسلامی بیروت    ۱ /۲۰۷ و ۲۱۰)
سُبٰحن اﷲ!اگر عباس رضی اﷲ تعالٰی عنہ اپنے کانوں سے مرتے وقت کلمہ توحید پڑھنا سُنتے تو اس سوال کا کیا محل تھا، وہ نہ جانتے تھی کہ الاسلام یجب ماقبلہ مسلمان ہوجانا گزرے ہوئے سب اعمالِ بدکو ڈھادیتا ہے، کیا وہ نہ جانتے تھے کہ اخیر وقت جو کافر مسلمان ہوکر مرے بے حساب جنت میں جائے،
من قال لا الہٰ الّا اﷲ دخل الجنّۃ۱؂ ۔ ( جس نے لا الہٰ الاّ اﷲ کہا جنّت میں داخل ہوا۔ت)
 ( ۱ ؎ الدرالمنثور         تحت آلایۃ                    مکتبہ آیۃ اﷲ العظمی قم ایران        ۶ /۶۳)
(المستدرک للحاکم         کتاب التوبۃ     من قال لا الہٰ الا اﷲ         دارالفکر بیروت             ۴ /۲۵۱)
(المعجم الکبیر      حدیث ۶۳۴۷        المکتبۃ الفیصلیۃ بیروت        ۷ /۴۸)
اور پھر سوال میں کیا عرض کرتے ہیں وہی پرانے قصّے نصرت ویاری و حمایت و غمخواری یہ نہیں کہتے یارسول اﷲ ! وہ تو کلمہ اسلام پڑھ کر مرا ہے، یہ پوچھتے ہیں کہ حضور نے اسے بھی کچھ نفع بخشا، یا نہیں  کہتے یارسول اللہ ! وہ تو کلمہ اسلام پڑھ کر مرا ہے، یہ پوچھتے ہیں کہ حضور نے اسے بھی کچھ نفع بخشآ یہ نہیں عرض کرتے کہ کون سے اعلٰی درجاتِ جنت عطا فرمائے ، وہ حالت صحیح میں ہوتے تو پرواز سوال یوں ہوتا کہ یارسول اﷲ! ابو طالب کا خاتمہ ایمان پر ہوا اور حضور کے ساتھ اُن کی غایت محبت و کمال حمایت تو قدیم سے تھی اﷲ عزوجل نے فردوس اعلٰی کا کون سا محل انہیں کرامت فرمایا تو نظرِ انصاف میں یہ سوال ہی اس روایت کی بے اصلی پر قرینہ و انحہ ہے اور جواب تو جو ارشاد ہوا ظاہر ہے" والعیاذ با ﷲ تعالٰی ارحم الراحمین "یہ جواب فقیر غفر اﷲ تعالٰی لہ نے اپنے فتوائے سابقہ مختصرہ میں ذکر کیا تھا
اب شرح مواہب میں دیکھا کہ علامہ زرقانی نے بھی اس کی طرف ایما کیا، فرماتے ہیں :" فی سوال العباس عن حالہ دلیل علی ضعف روایۃ ابن اسحٰق لانہ لوکانت الشہادۃ عندہ لم یسأل لعلمہ بحالہ۲؂۔ابو طالب کے حال کے بارے میں حضرت عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ کے سوال میں روایت ابن اسحٰق کے ضعف پر دلیل ہے، کیونکہ اگر ابوطالب نے حضرت عباس کے نزدیک کلمہ شہادت پڑھ لیا تھا تو وہ یہ سوال نہ کرتے اس لیے کہ ان کو اس کا حال معلوم ہوتا،۔(ت)
 ( ۲ ؎ شرح الزرقانی علی المواہب اللدنیہ     المقصد الاول وفاۃ خدیجہ         دارالمعرفۃ بیروت            ۱ /۲۹۳)
اقول: یونہی ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہا جن کی طرف اس کی روایت کی نسبت جاتی ہے علاوہ اُس تفسیر کے جو آیت ثالثہ میں اُن سے مروی خود بسند صحیح معلوم کہ وہ حضور پرنور سید یوم النشور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے ابو طالب کے بارے میں وہ ارشاد پاک حدیث ہشتم میں سُن چکے ہیں جس میں ناری ہونے کی صریح تصریح ہے یہ روایت اگر صحیح ہوتی تو اِس کا مقتضٰی یہ تھا کہ ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما ابو طالب کو ناجی جانیں کہ ان امور میں نسخ وتغیر کو راہ نہیں مگر لازم بحکمِ حدیث صحیح مسلم باطل تو ملزوم بھی حلیہ صحت سے عاطل، فافہم۔
خامساً  یقیناً معلوم کہ عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ اُس وقت تک مشرف باسلام نہ ہوئے تھے کہیں گیارہ برس بعد فتح مکہ میں مسلمان ہوئے ہیں، اوراسی روایت میں ہے کہ حضور سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے ابو طالب کا کلمہ پڑھنا نہ سُنا اور اُن کی عرض پر بھی اطمینان نہ فرمایا : یہی ارشاد ہوا کہ ہم نے نہ سُنا ، اب نہ رہی مگر ایک شخص کی شہادت جو عدالت درکنار گواہی دیتے وقت مسلمان بھی نہیں وہ شرعاً کس قاعدہ وقانون سے قابل قبول یا لائق  التفات اصحابِ عقول ہوسکتی ہے۔
اقول:  پہلے جوابوں کا حاصل سندًا یا متناً روایت کی تصنعیف تھی اس جواب میں اُسے ہر طرح صحیح مان کر کلام ہے کہ اب بھی اثبات مدعی سے مس نہیں اُس سے یہ ثابت ہوا کہ ابو طالب نے کلمہ پڑھا بلکہ اس اس قدر معلوم ہوا کہ عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اپنی غیر اسلام کی حالت میں ایسا بیان کیا پھر اس سے کیا ہوتا ہے، یہ جواب امام سہیلی نے روض الانف میں ارشاد فرمایا اور ان کے بعد امام عینی و امام قسطلانی نے ذکر کیا۔
عمدہ میں ہے :  قال السھیلی ان العباس قال ذٰلک فی حال کو نہ علی غیر الاسلام ولواداھا بعد الاسلام لقبلت منہ ۱؂۔سہیلی نےکہا کہ حضرت عباس نے یہ بات حالتِ غیر اسلام میں کہی اگر بعد اسلام وہ اس کو ادا کرتے تو مقبول ہوتی۔(ت)
 ( ۱ ؎ عمدۃ القاری کتاب الجنائز       حدیث۱۳۶۰    دارالکتب العلمیہ بیروت   ۸ /۲۶۴)
اقول : وباﷲ التوفیقخود اسی روایت کا بیان کہ سیّد عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے اُن کی عرض پر یہی فرمایا کہ ہمارے مسامع قدسیہ تک نہ آیا۔ دلیل واضح ہے کہ حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے اُن کے بیان پر اطمینان نہ فرمایا اس گواہی کو مقبول و معتبر نہ ٹھہرایا ورنہ کیا عقل سلیم قبول کرتی ہے کہ حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو جس کے اسلام میں اس درجہ کوشش بلیغ ہونفس انفس نے اس حد شدت پر اُس کی خواہش فرمائی جب وہ امر عظیم محبوب و قوع میں آئی ایسے سہل لفطوں میں جواب دے دیا جائے، لاجرم اس ارشاد کا یہی مفاد کہ تمہارے کہنے پر کیا اعتماد ہم سُنتے تو ٹھیک تھا یہ صریح ردّ شہادت ہے تو جو گواہی خدا و رسول رَد فرماچکے دوسرا اس کا قبول کرنے والا کون۔

وبھٰذا التحقیق الانیق استنار واﷲ الحمد ان الامام العینی لقد احسن اذاقتصرفی نقل کلام الامام السہیلی علی مامرونعمافعل اذلم یتعدالٰی ما تعدی الیہ الامام القسطلانی وتبعہ العلامۃ الزرقانی حیث اثراکلامہ برمتہ واقرا علیہ ھذالفظھما(اجیب) کما قال السہیلی فی الروض (بان شہادۃ العباس لابی طالب لواداھا بعد مااسلم کانت مقبولۃ ولم ترد) شہادتہ (یقول علیہ الصلوۃ والسلام لم اسمع لان الشاھد العدل اذا قال سمعت وقال من ھو اعدل منہ لم اسمع اخذ بقول من اثبت السماع )قال السھیلی لان عدم السماع یحتمل اسبابا منعت الشاھد من السمع (ولکن العباس شہدبذلک قبل ان یسلم) فلا تقبل شہادتہ ۔۱؂ اھ

اور اس عمدہ تحقیق سے بحمداﷲ روشن ہوگیا کہ امام عینی نے امام سہیلی کے نقل کلام میں اقتصار کرکے بہت اچھا کیا اُس کی بنیاد پر جو گزرا اور اس کی طرف تجاوز نہ کرکے بھی اچھا کیا جس کی طرف امام قسطلانی نے تجاوز کیا اور ان کی اتباع کی علامہ زرقانی نے کیونکہ ان دونوں نے اس کے کلام کو پورا نقل کیا اور اس پر قائم رہے اور یہ لفظ ان دونوں کے ہیں۔( جواب دیا گیا) جیسا کہ امام سہیلی نے روض میں فرمایا کہ اگر ابوطالب کے بارے میں حضرت عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ کی شہادت آپ کے اسلام لانے کے بعد ہوتی تو مقبول ہوتی، اس کو حضور علیہ الصلوۃ والسلام کے اس ارشاد کے ساتھ رَدنہ کیا جاتا کہ " میں نے نہیں سُنا" کیونکہ عادل گواہ جب کہے کہ میں " میں نے سُنا ہے"، اور اس سے زیادہ عدل والا کہے کہ " میں نے نہیں سُنا" تو اس کے قول کو قبول کیا جائے گا جو سماع کو ثابت کرنے والا ہے، سہیلی نے کہا : اس کی وجہ یہ ہے کہ عدمِ سماع کئی ایسے اسباب کا احتمال رکھتا ہے جو گواہ کو سننے سے روکتے ہوں، لیکن چونکہ حضرت عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اسلام لانے سے قبل اس کی شہادت دی لہذا ان کی شہادت قبول نہ ہوگی ۔ اھ
 (۱؂شرح الزرقانی علی المواہب الدنیۃ    المقصد الاول وفاۃ خدیجہ وابی طالب      دارالمعرفۃ بیروت    ۱ /۲۹۱ و ۲۹۲)
اقول : فلیس الکلام فی ان عباسا اثبت والنبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نفی فھما شہادتان جاء تاعندنا احدھما تثبت والاخری تنفی فتقدم التی تثبت لوکان صاحبہا عدلا ومعاذ اﷲ ان تقدم علی قولہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم لم یقبل شہادۃ العباس و لم یرکن الیھا فھو صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم قاض لاشاھد اٰخر وانما الشاھد العباس وحدہ، فاذا لم یقبلہا النبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فمن یقبلہا بعدہ ھذا ماعندی وانافی عجب عاجب ھٰھنا من کلام ھٰؤلاء الاعلام الاکا برفامعن النظر لعل لہ معنی قصرت عنہ ید فھمی القاصر "،
میں کہتا ہوں اس میں کلام نہیں کہ حضرت عباس رضی اﷲ تعالٰی عنہ نے اثبات کیا اور نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے نفی فرمائی یہ دو شہادتیں ہمارے پیش نظر ہیں، ایک ثابت کرنے والی اور دوسری نفی کرنے والی، لہذا مثبت گواہی نافی پر مقدم ہوگی جب کہ مثبت گواہی دینے والا عادل ہو اور معاذ اﷲ کہ وہ نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے قول پر مقدم ہو۔ نبی اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے حضرت عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ کی شہادت کو قبول نہیں فرمایا اور نہ ہی اس کی طرف میلان فرمایا، کیونکہ آپ تو قاضی تھے نہ کہ دوسرے گواہ، گواہ تو تنہا حضرت عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ تھے جب نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے اسے قبول نہیں فرمایا تو آپ کے بعد کون قبول کرسکتا ہے۔ یہ وہ ہے جو میرے پاس ہے۔
مجھے اس مقام پر ان اکابر علماء کے کلام پر سخت تعجب ہے، میں نے گہری نظر سے دیکھا کہ شاید اس کا کوئی معنی بن سکتا ہو مگر میرے فہم قاصر کا ہاتھ اس سے قاصر رہا۔(ت)
یہ اجوبہ علماء ہیں اور بحمد اﷲ کافی و وافی و صافی ہیں،وانا اقول: وباﷲ التوفیق ( میں اﷲ تعالٰی کی توفیق سے کہتا ہوں۔ت)
سادساً ہم تسلیم کرتے ہیں کہ روایت اُنہیں احادیث صحیحیں کی مثل سنداً ومتناً ہر طرح اعلٰی درجہ کی صحیح اور شہادت عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ بھی بروجہ کمال مقبول ونجیح ، پھر بھی نہ مستدل کو نافع نہ کفرِ ابی طالب کی اصلاً دافع ، آخر جب بحکمِ احادیث جلیلہ آیت قرآنیہ مشرک و ناری بتارہی ہے تو یہ کسی کے مٹائے مٹتا نہیں، یہ دوسری حدیث کہ فرضاً اُسی پلہ کی صحیح و جلیل ہے صرف اتنا بتاتی ہے کہ ابو طالب نے اخیر وقتلا الہٰ الا اﷲکہا ، یہ نہیں بتاتی ، کہ وہ وقت کیا تھا ، آخر وقت کیا تھا، آخر وقت دو ہیں ایک وہ کہ ہنوز پر دے باقی ہیں اور یہ وقت وقتِ قبول ایمان ہے، دوسرا وہ حقیقی آکر جب حالت غر غرہ ہو، پردے اُٹھ جائیں جنت و نار پیش نظر ہوجائیں۔ " یؤمنون بالغیب " کا محل نہ رہے، کافر کا اس وقت اسلام لانا بالاجماع مردود و نامقبول ہے۔
اﷲ عزوجل فرماتا ہے :فلم یک ینفعھم ایمانھم لما رأوا باسنا سنّۃ اﷲ التی قد خلت فی عبادہ و خسر ھنالک الکفرون۱؂ ۔تو اُن کے ایمان نے انہیں کام نہ دیا جب انہوں نے ہمارا عذاب دیکھ لیا، اﷲ کا دستور حواس کے بندوں میں گزر چکا اور وہاں کافر گھاٹے میں ۔ (ت )
 ( ۱ ؎     القرآن الکریم         ۴۰ /۸۵)
رسول اﷲ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں:ان اﷲ یقبل توبۃ العبد ما لم یغرغر، رواہ الحمد ۲؂ والترمذی و حسنہ و ابن ماجۃ والحاکم و ابن حبان والبیھقی فی الشعب کلھم عن سیدنا عبداﷲ بن عمر رضی اﷲ تعالٰی عنہما ۔اﷲ تعالٰی سکراتِ موت سے پہلے پہلے توبہ قبول فرماتا ہے، اس کو روایت کیا احمد نے، ترمذی نے اور ترمذی نے اس کو حسن کہا۔ نیز روایت کیا اس کو ابن ماجہ، حاکم، ابن حبان اورا مام بیہقی نے شعب میں ، ان تمام نے سیدنا عبداﷲ بن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہما سے روایت کیا۔(ت)
 ( ۲ ؎ جامع الترمذی     ابواب الدعوات      باب ماجاء فی فضل التوبۃالخ    امین کمپنی دہلی         ۲ /۱۹۲)
(مسند احمد بن حنبل عن عبداﷲ بن عمر رضی اللہ عنہما     المکتب الاسلامی بیروت     ۲ /۱۳۲)
(المستدرک للحاکم     کتاب التوبۃ     باب ان اﷲ یغفر لعبدہ     دارالفکر بیروت    ۴ /۲۵۷)

اب اگر وقت اول کہنا مانتے ہیں تو آیت قرآنیہ مع اُن احادیث صحیحہ کے اس حدیث صحیح مفروض سے مناقض ہوگی اور کسی نہ کسی حدیث صحیح کو رَد کے بغیر چارہ نہ ملے گا اور اگر وقت دوم پر مانتے ہیں تو آیت و احادیث سب حق و صحیح ٹھہرتے ہیں اور تناقض و تعارض بے تکلف دفع ہوا جاتا ہے کلمہ پڑھا اور ضرور پڑھا مگر کب، اس وقت جب کہ وقت نہ رہا تھا، لہذا حکمِ شرک و نار برقرار رہا۔
قال اﷲ تعالٰی (اﷲ تعالٰی نے فرمایا ۔ت) :حتی اذا ادرکہ الغرق قال اٰمنت انہ لا الہٰ الاّ الذی اٰمنت بہ بنو اسرائیل وانا من المسلمین o۳؂ اٰلئن وقد عصیت قبل وکنت من المفسدین o۴؂ ۔یہاں تک کہ جب اُسے ڈوبنے نے آلیا تو بولا مَیں ایمان لایا کہ کوئی سچا معبود نہیں اس کے جس پر بنی اسرائیل ایمان لائے اور میں مسلمان ہوں کیا اب اور پہلے سے نافرمان رہا اور تو فسادی تھا۔
۳ ؎ القرآن الکریم         ۱۰ /۹۰ )                   ( ۴ ؎ القرآن الکریم         ۱۰ /۹۱ )
صورت اُولٰی ظاہر البطلان ، لہذا شق اخیر ہی لازم الاذعان ، اور فی الواقع اگر یہ روایت مطابق واقع تھی تو قطعاً یہی صورت واقعی ہوئی اور وہ ضرور قرینِ قیاس بھی ہے، حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ان کے قریب مرگ ہی جلوہ افروز ہوئے ہیں، اسی حالت میں کفارِ قریش سے وہ محاورات ہوئے سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے بار بار باصرار دعوتِ اسلام فرمائی کفار نے ملتِ کفر پر قائم رہنے میں جان لڑائی ، آخر پچھلا جواب وہ دیا کہ ابو طالب ملتِ جاہلیت پر جاتا ہے، یہاں تک بات چیت کی طاقت تھی اب سینے پر دم آیا پر دے اُٹھے غیب سامنے آیا اُس نار نے جس پر عار کو اختیار کیا تھا اپنی مہیب صورت سے منہ دکھایالیس الخبر کالمعاینۃ ۱؂ ( خبر مشاہدہ کی مثل نہیں۔ ت)
 ( ۱ ؎ مسند احمد بن حنبل     عن ابن عباس رضی اللہ عنہ      المکتب الاسلامی بیروت  ۱ /۲۷۱)
اب کھلا کہ یہ بلا جھیلنے کی نہیں، ڈوبتا ہوا سوار پکڑتا ہے، ابلا الہٰ الا اﷲکی قدر آئی، کہنا چاہا طاقت نہ پائی، آہستہ لبوں کو جنبش ہوئی مگر بے سود کہ وقت نکل چکا تھا۔
انّا اﷲ وانّا الیہ راجعون ولا حول ولاقوۃ الا باﷲ العلی العظیم۔ہم اﷲ تعالٰی کے لیے ہیں اور اسی کیطرف لوٹ کر جانے والے ہیں، نہ گناہ سے بچنے کی طاقت ہے اور نی نیکی کرنے کی قوت ہے مگر بلندی و عظمت والے خدا کی توفیق سے۔(ت)
تو حضرت عباس رضی ا ﷲ تعالٰی عنہ بھی سچے کہ کلمہ پڑھا ، اور قرآن و حدیث تو قطعاً سچے ہیں کہ حکمِ کفر بدستور رہا۔والعیاذ باﷲ رب ّ العالمین ۔ ( اﷲ کی پناہ جو پروردگار ہے تمام جہانوں کا۔ت)
سابعاً  اس سے بھی در گزر یے ، یہ بھی مانا کہ حالتِ غرغرہ سے پہلے ہی پڑھا ہے پھر حضرت عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ تو ظاہر ہی کی گواہی دیں گے، دل کے حال کا عالم خدا ہے، کیا اگر کوئی شخص روزانہ لاکھ بار کلمہ پڑھے اورا ﷲ عزوجل اسے کافر بتائے تو ہم اس کے کلمہ پڑھنے کو دیکھیں گے یا اپنے رب عزوجل کے ارشاد کو، ایمان زبان سے کلمہ خوانی کا نام نہیں، جب دلوں کا مالک اس کے کفر پر حاکم تو قطعاً ثابت کہ اس کے قلب میں اذعان و اسلام نہیں، آخر نہ سُنا کہ جیتے جاگتے تندرستوں کے بڑی سے بڑی قسم کھا کرنشھد انّک لرسول اﷲ ۲؂ ( ہم گواہی دیتے ہیں کہ حضور بے شک یقیناً اﷲ کے رسول ہیں۔ت) کہنے پر کیا ارشاد ہوا :واﷲ یعلم انّک لرسولہ واﷲ یشھد ان المنٰفقین لکٰذبون ۔۱؂اور اﷲ جانتا ہے کہ تم اس کے رسول ہو اور اﷲ گواہی دیتا ہے کہ منافق ضرور جھوٹے ہیں۔(ت)
 ( ۲ ؎ القرآن الکریم     ۶۳ /۱)  ( ۱ ؎     القرآن الکریم      ۶۳ /۱)
غرض لاکھ جتن کیجئے آیت براء ت سے براء ت ملے یہ شُدنی نہیں رہے گیہمان آش درکاسہ ( وہی قسمت وہی نصیب۔ ت) کہ :تبین لھم انّھم اصحب الجحیم ۲؂ ۔کھُل چکا کہ وہ دوزخی ہیں۔(ت)
 ( ۲ ؎ القرآن الکریم   ۹ /۱۱۳)
والعیاذ باﷲ رب العٰلمین اللّٰھم ارحم الرحمین صل وسلم وبارک علی السید الامین الاتی من عندک بالحق المبین اللھم بقدر تک علینا وفاقتنا الیک ارحم عجزنا یا ارحم الراحمین امین امین امین والحمدﷲ رب العلمین لا الٰہ الا اﷲ عدۃ للقاء اﷲ محمد رسول اﷲ ودیعۃ عند اﷲ ولاحول ولا قوۃ الا باﷲ وصلی اللہ تعالٰی علٰی سیّدنا محمد واٰلہ اجمعین والحمدﷲ رب العٰلمین۔اور اﷲ تعالٰی کی پناہ جو تمام جہانوں کا پروردگار ہے۔ اے اﷲ بہترین رحم کرنے والے ۔ درود سلام اور برکت نازل فرما اُس امانت والے سردار پر جو تیری بارگاہ سے حق مبین لے کر آنے و الے ہے۔ اے اﷲ ! اپنی قدرت کے ساتھ جو ہم پر ہے اور ہماری محتاجی تیری طرف ہے، ہمارے عجز پر رحم فرما اے بہترین رحم فرمانے والے، ہماری دُعا قبول فرما، اور تمام تعریفیں اس خدا کے لیے ہیں جو کل جہانوں کا پروردگار ہے۔ اﷲ کے بغیر کوئی سچا معبود نہیں ، محمد رسول اﷲ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے ساتھ اﷲ تعالٰی کی ملاقات کا وعدہ اﷲ تعالٰی کے پاس ودیعت ہے ، نہ گناہ سے بچنے کی طاقت ہے اور نہ ہی نیکی کرنے کی قوت مگر اﷲ کی توفیق سے۔ اﷲ تعالٰی درود نازل فرمائے ہمارے آقا محمد مصطفٰی پر ، آپ کی آل اور سب صحابہ پر، اور سب تعریفیں اﷲ کے لیے ہیں جو تمام جہانوں کا پروردگار ہے۔(ت)
بحمداﷲ از احت شبہات سے بھی بروجہ احسن فراغ پایا۔"وھناک شبھۃ اخر اوھن و اھون لم نوردھا اذلم تعرض ولم تعرف فلا نطیل الکلام بایرادھا و لنطوھا علی غرھالمیعا دھا "۔یہاں ایک دوسرا شبہ ہے جو بہت کمزور اور بہت ہلکا ہے ہم اس کو اس لیے وارد نہیں کرتے۔ کہ نہ تو اُس کا تعرض کیا گیا ہے اور نہ ہی وہ معروف ہے، چنانچہ ہم اس کو وارد کرکے کلام کو لمبا نہیں کرتے۔ لہذا چاہیے کہ ہم اس کے مقررہ وقت تک اس کو اس کے شکن پر لپیٹ دیں۔(ت)
اب بقیہ سوال کا جواب لیجئے اور اس رسالہ میں جن ائمہ و علماء و کتب سے یہ مسئلہ ثابت کیا آخر میں اُن کے اسماء شمار کردیجئے کہ جسے رسالہ دیکھنے میں کاہلی آئے ان ناموں ہی کو دیکھ کر خلاف سے ہاتھ اٹھائے لہذا تین فصل کا وصل اور مناسب کہتلک عشرۃ کاملۃ ( یہ پورے دس ہوئے۔ت) جلوہ دکھائے۔
فصل ہشتم 
جب ابوطالب کا کفرادلّہ کالنہّار سے آشکار تو رضی اللہ تعالٰی عنہ کہنے کا کیونکراختیار ، اگر اخبار ہے تو اﷲ تعالٰی عزوجل پر افترا، کفار کو رضائے الہٰی سے کیا بہرہ، اور اگر دُعا ہےکما ھو الظاھر ( جیسا کہ ظاہر ہے۔ت) تو دعا بالمحال حضرت ذی الجلال سے معاذ اﷲ استہزاء ، ایسی دُعا سے حضور سرور عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے نہی فرمائی۔
کما فی الصحیحین ۱؂ وقد بیّنّاہ فی رسالتنا  "ذیل المدعاء لاحسن الوعاء"  التی ذیلنا بہار سالۃ  "احسن الوعاء لاٰداب الدعاء"  لخاتمۃ المحققین سیدنا الوالدقدس سرہ الماجد"۔جیسا کہ صحیحین میں ہے، اور ہم نے اس کو اپنے رسالہ"ذیل المدعاء لاحسن الوعاء"میں بیان کردیا۔ اس رسالے کو ہم نے حاشیہ بنایا رسالہ" احسن الوعادء لآداب الدعاء"کا جو تصنیف ہے خاتمۃ المحققین ہمارے سردار والد گرامی قدس سرّہ، کی۔ت)
 ( ۱ ؎صحیح البخاری   کتاب التفسیر سورۃ البراء ۃ      باب ماکان للنبی والذین اٰ منوا لخ    قدیمی کتب خانہ کراچی     ۲ /۶۷۵)
(صحیح مسلم  کتاب الایمان   باب الدلیل علٰی صحۃ الاسلام من حضرہ الموت الخ     قدیمی کتب خانہ کراچی     ۱ /۴۰)
علماء نے کافر کے لیے دُعائے مغفرت پر سخت اشد حکم صادر فرمایا اور اس کے حرام ہونے پر تو اجماع ہے ، پھر دعائے رضوان تو اس سے بھی ارفع و اعلٰی۔فان السید قدیعفوعن عبدہ وھوعند غیر ر اض کما ان العبدربما یحب سیدہ وھو علی امرہ غیر ماض وحسبنا اﷲ و نعم الوکیل"اس لیے کہ مالک بعض دفعہ اپنے غلام کو معاف کردیتا ہے حالانکہ وہ اُس پر راضی نہیں ہوتا، جیسا کہ غلام بسا اوقات اپنے مالک کو پسند کرتا ہے مگر اُس کے حکم پر عمل پیرا نہیں ہوتا۔اﷲ ہمیں کافی ہے اور کیا ہی اچھا کارساز ہے۔(ت)
امام محمد محمد محمد حلبی حلیہ میں فرماتے ہیں:" صرح الشیخ شہاب الدین القرافی المالکی بان الدعاء بالمغفرۃ للکافر کفر لطلبہ تکذب اﷲ تعالٰی فیما اخبر بہ ولہذا قال المصنف وغیرہ ان کان مؤمنین "۔۱؂یعنی امام شہاب قرآنی مالکی نے تصریح فرمائی کہ کفار کے لیے دعائے مغفرت کرنا کفر ہے، کہ اﷲ عزوجل نے جو خبر دی اس کا جھوٹا کرنا چاہتا ہے اس لیے منیہ وغیرہ کتب فقہ میں قید لگادی کہ ماں با پ کے لیے دعائے مغفرت کرے بشرطیکہ وہ مسلمان ہوں۔
 ( ۱ ؎ حلیۃ المحلی)
پھر ایک ورق کے بعد فرمایا کہ" تقدم ان کفر "۲؂ ۔اوپر بیان ہوچکا ہے کہ یہ کفر ہے۔
۲ ؎ حلیۃ المحلی)
ردالمحتار میں ہے :الدعاء بہ کفر لعدم جوازہ عقلاً و لاشرعاً ولتکذیب النصوص القطعیۃ بخلاف الدعاء للمؤمنین کما علمت فالحق ما فی الحلیۃ۳؂ ۔اس کی دُعا کفر ہے کیونکہ یہ عقلاً و شرعاً ناجائز ہے اور اس میں نصوص قطعیہ کی تکذیب ہے بخلاف مومنوں کے لیے دعا کے۔ جیسا کہ تُو جان چکا ہے، اور حق وہ ہے جو حلیہ میں ہے۔(ت)
 ( ۳ ؎ ردالمحتار   کتاب الصلوۃ    فصل واذاارادالشروع فی الصلوۃ   داراحیاء التراث العربی بیروت   ۱ /۳۵۱)
درمختار میں ہے:الحق حرمۃ الدعاء بالمغفرۃ للکافر۴؂ ۔حق یہ ہے کہ کافر کے لیے دعائے مغفرت حرام ہے۔
 ( ۴ ؎ الدرالمختار   کتاب الصلوۃ    فصل واذاارادالشروع فی الصلوۃ    داراحیاء مطبع مجتبائی دہلی     ۱ /۷۸)
اسی طرح بحرالرائق میں ہے:اقول : ومانحاالیہ العلامۃ الشامی من عدم جواز عفوالکفرعقلافانما تبع فیہ الامام النسفی صاحب عمدۃ الکلام وشرذمۃ قلیلۃ من اھل السنۃ والجمھور علی امتناعہ شرعا وجوازہ عقلا کما فی شرح المقاصد و المسامرۃ وغیرھما وبہ تقضی الدلائل فہوالصحیح وعلیہ التعویل فاذن الحق ماذھب الیہ البحروتبعہ فی الدروتمام الکلام فی ھذاالمقام فیما علقنا ہ علی ردالمحتار ۔اقول : ( میں کہتاہوں) جس کا قصد علامہ شامی نے کیا یعنی کفر کی معافی کا عقلاً عدم جواز تو اس میں انہوں نے عمدۃ الکلام کے مصنف امام نسفی اور اہلسنت کے گروہ قلیل کی پیروی کی ہے، جب کہ جمہور کے نزدیک یہ شرعاً ممتنع اور عقلاً جائز ہے جیسا کہ شرح المقاصد اور مسامرہ وغیرہ میں ہے۔ اور دلائل اسی کے مؤید ہیں لہذا یہی صحیح اور اسی پر بھروسا ہے، تو اب حق وہ ہے جس کی طرف صاحب البحر گئے ہیں اور دُر میں اسی کی پیروی کی ہے، اور مکمل کلام اس مقام پر ردالمحتار پر ہمارے حاشیہ میں ہے۔(ت)
ہاں ابولہب وابلیس لعنہمااﷲ کی مثل کہنا محض افراط اور خون انصاف کرنا ہے، ابوطالب کی عمر خدمت و کفالت  و نصرت و حمایتِ حضرت رسالت علیہ وعلٰی آلہ الصلوۃ والتحیۃ میں کٹی اور یہ ملا عنہ درپردہ وعلانیہ درپے ایذاء واضرار رہے کہان وہ جس کا وظیفہ مدح وستائش ہواور کہاں وہ شقی جس کا ورد ذم ونکوہش ہو ایک اگرچہ خود محروم اور اسلام سے مصروف مگر بتسخیر تقدیر نفع اسلام میں مصروف اور دوسرا مردود و متمر دوعدو ومعاندہمہ تن کسر بیضہ اسلام میں مشغوف ۔عببیں تفاوت رہ ازکجا ست تابہ کجا
 ( ان میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ت)
آخرنہ دیکھا جو صحیح حدیث میں ارشاد ہوا کہ ابوطالب پر تمام کفار سے کم عقاب ہے اور یہ اشقیاء اُن میں ہیں جن پر اشد العذاب ہے، ابوطالب کے صرف پاؤں آگ میں ہیں اور یہ ملا عنہ اُن میں کہ:لھم من فوقھم ظلل من النارومن تحتھم ظلل۱؂ ۔اُن کے اوپر آگ کی تہیں ہیں اور اُن کے نیچے آگ کی تہیں۔
 ( ۱ ؎ القرآن الکریم     ۳۹ /۱۶)
لھم من جہنّم مھادٌ ومن فوقھم غواش ۲؂ ۔ان کے نیچے آگ کا بچھونا اور اوپر آگ کے لحاف۔
 ( ۲ ؎ القرآن الکریم  ۷ /۴۱)
سراپا آگ، ہر طرف سے آگ۔والعیاذ باﷲ رب العلمین ( اور اﷲ رب العالمین کی پناہ۔ت)
بلکہ دونوں کا ثبوتِ کفر بھی ایک سا نہیں، ابوطالب کے باب میں اگرچہ قول حق و صواب وہی کفر و عذاب،اور اس کا خلاف شاذ ومردود باطل و مطرود پھر بھی اس حد کا نہیں کہ معاذاﷲ خلاف پر تکفیر کا احتمال ہو اور ان اعداء اﷲ کا کافر و ابدی جہنمی ہونا تو ضروریاتِ دین سے ہے جس کا منکر خود جہنمی کا فر، توفریقین کا نہ کفر یکساں نہ ثبوت یکساں، نہ عمل یکساں نہ سزا یکساں، ہر جگہ فرقِ زمین و آسمان، پھر مماثلت کہاں۔

" نسأل اﷲ سلوک سوی الصراط ونعوذ باﷲ من التفریظ والافراط"۔
ہم اﷲ تعالٰی سے سیدھے راستے پر چلنے کا سوال کرتے ہیں، اور افراط و تفریط سے اس کی پناہ مانگتے ہیں۔(ت)

فصل نہم 
ان ائمہ دین و علمائے معتمدین کے ذکر اسمائے طیبہ میں جنہوں نے کفر ابی طالب کی تصریح و تصحیح فرمائی اور اُن کے ارشادات کی نقل اس رسالہ میں گزری

" فمن الصحابۃ "

 (۱) امیر المومنین صدیقِ اکبر                            (۲) امیر المومنین فاروق اعظم
(۳) امیر المومنین علی مرتضٰی              (۴) حبر الامتہ سیدنا عبداﷲ بن عباس
(۴) حافظ الصحابہ سیدنا ابوہریرہ           (۶)صحابی ابن الصحابی سیدنا مسیّب بن حزن قریشی مخزومی
(۷) حضرت سیدنا عباس عم رسول اﷲ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم     (۸) سیدنا ابوسعید خدری
(۹) سیدنا جابر بن عبداﷲ انصاری (۱۰) حضرت سیدتنا ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ تعالٰی عنہم اجمعین
(۱۱)سیدنا انس بن مالک خادم رسول صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم
(۱۲)حضرت سیدتنا ام المومنین ام سلمہ رضی اﷲ تعالٰی عنہم اجمعین

پہلے چھ حضرات سے تو خود اُن کے اقوال گزرے اور انس و ابن عمررضی اللہ تعالٰی عنہم کی تقریر اور باقی چار خود حضور پرُنور سیدعالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے ارشاد بیان فرماتے ہیں، اور پر ظاہر کہ یہاں اپنے کہنے سے نبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کا ارشاد بتانا اور بھی ابلغ ہے۔

ومن التابعین :

 (۱۳)آدم آل عبازین العابدین علی بن حسین بن علی مرتضٰی رضی اﷲ تعالٰی عنہم و کرم وجوھہم
(۱۴)امام عطاء بن ابی رباح استاذ سیّدنا الامام الاعظم رضی اللہ تعالٰی عنہا
(۱۵) امام محمد بن کعب قرظی کہ اجلّہ ائمہ محدثین و مفسرین تابعین سے ہیں۔
(۱۶) سعید بن محمد ابوالسفرتابعی ابن التابعی ابن الصحابی نبیرہ سیّدنا جبیرین مطعم رضی اللہ تعالٰی عنہ ۔
(۱۷) امام الائمہ سراج الاُمہ سیّدنا امام اعظم ابوحنیفہ رضی اﷲ تعالٰی عنہ۔

ومن تبع تابعین :

 (۱۸) عالم المدینہ امام دارالہجرۃ سیّدنا امام مالک رضی اللہ تعالٰی عنہ۔
(۱۹) محررالمذہب مرجع الدنیا فی الفقہ والعلم سیدنا امام محمد رضی اللہ تعالٰی عنہ
(۲۰)امام تفسیر مقاتل بلخی

 (۲۱)سلطان اسلام خلیفۃ المسلمینجن کے آنے کی سیّدنا عبداﷲ بن عباس رضی اﷲ تعالٰی عنہما نے بشارت دی تھی کہ :" منّا السفاح ومنّا المنصور ومنّا المھدی رواہ الخطیب و ابن عساکر وغیرھما بطریق سعید بن جبیرعنہ قال السیوطی قال الذھبی اسنادہ صالح "۔ہمیں میں سے ہوگا سفاح اور ہمیں میں منصور اور ہمیں میں مہدی۔(اس کو خطیب و ابن عساکروغیرہ نے سعید بن جبیر کے طریق سے روایت کیا اور اُسی کے طریق سے امام سیوطی نے کہا : ذہبی نے کہا اس کا اسناد صالح ہے۔ت)

بلکہ دو حدیثوں میں یہی الفاظ نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے آئے :رواہ کذلک الخطیب من طریق الضحاک عن ابن عباس وابن عساکر فی ضمن حدیث عن ابی سعید الخدری رضی اللہ تعالٰی عنہم رفعاہ الی النبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم"اس کو اسی طرح خطیب نے بطریق ضحاک سیّدنا ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہاسے روایت کیا جب کہ ابن عساکر نے ایک حدیث کے ضمن میں حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کیا اور ان دونوں نے اس کا رفع نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم تک کیا۔(ت)اعنی امام ابوجعفر منصور نبیرزادہ ابن عم رسول اﷲ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم۔

ومن اتباع التبع ومن یلیھم :

 (۲۲) امام الدنیا فی الحفظ والحدیث ابوعبداﷲ محمد بن اسمعیل بخاری ۔
(۲۳) امام اجل ابوداؤد سلیمان بن اشعت سجستانی
(۲۴) امام عبدالرحمن احمد بن شعیب نسائی۔
(۲۵) امام ابو عبداﷲ بن یزید ابن ماجہ قزوینی۔

یہ چاروں ائمہ اصحاب صحاح مشہورہ ہیں اور یہی طبقہ اخیرہ عبداﷲ بن المعتز کا ہے۔

وممن بعد ھم من المفسرین :

 (۲۶) امام محی السنہ ابومحمد حسین بن مسعود فّراء بغوی
(۲۷) امام ابواسحٰق زجاج ابراہیم بن السری۔
(۲۸) جار اﷲ محمود بن عمر خوار زمی زمخشری
(۲۹) ابوالحسن علی بن احمد واحدی نیشاپوری صاحبِ بسیط ووسیط ووجیز۔
(۳۰) امام اجل محمد بن عمر فخر الدین رازی۔
(۳۱) قاضی القضاۃ شہاب الدین بن خلیل خوبی دمشقی مکمل الکبیر۔
(۳۲) علامہ قطب الدین محمد بن مسعود بن محمود بن ابن ابی الفتح سیرافی شفار صاحبِ تقریب۔
(۳۳) امام ناصر الدین ابوسعید عبداﷲ بن عمر بیضاوی۔
(۳۴) امام علامۃ الوجود مفتی ممالک رومیہ ابوالسعود بن محمد عمادی۔
(۳۵) علامہ علاء الدین علی بن محمد بن ابراہیم بغدادی صوفی صاحبِ تفسیر لباب شہیربہ خازن ۔
(۳۶) امام جلال الدین محمد بن احمد محلی۔
(۳۷) علامہ سلیمان جمل وغیرہم ممن یاتی

ومن المحدثین والشارحین

 (۳۸) امام اجل احمد بن حسین بیہقی
(۳۹) حافظ الشام ابوالقاسم علی بن حسین بن ہبتہ اﷲ دمشقی شہیر بابن عساکر ۔
(۴۰) امام ابوالحسن علی بن خلف معروف بابن بطال مغربی شارح صحیح بخاری۔
(۴۱) امام ابوالقاسم عبدالرحمن بن احمد سہیلی۔
(۴۲) امام حافظ الحدیث علامۃ الفقہ ابوزکریا یحیٰی بن شرف نووی۔
(۴۳) امام ابوالعباس احمد بن عمر بن ابراہیم قرطبی شارح صحیح مسلم۔
(۴۴) امام ابوالسعادات مبارک بن محمد ابی الکرم معروف بابن اثیر جزری صاحبِ نہایہ وجامع الاصول ۔
(۴۵) امام جلیل محب الدین احمد بن عبداللہ الطبری۔
(۴۶) امام شرف الدین حسن بن محمد طیبی شارح مشکوۃ
(۴۷) امام شمس الدین محمد بن یوسف بن علی کرمانی شارح صحیح بخاری۔
(۴۸) علامہ مجد الدین محمد بن یعقوب فیروز آبادی صاحب القاموس۔
(۴۹) امام حافظ الشان ابوالفضل شہاب الدین احمد بن حجر عسقلانی۔
(۵۰) امام جلیل بدر الدین ابو محمد محمود بن احمد عینی ۔
(۵۱) امام شہاب الدین ابوالعباس احمد بن ادریس قرافی صاحبِ تنقیح الاصول۔
(۵۲) امام خاتم الحفاظ جلال الملتہ والدین ابوالفضل عبدالرحمن بن ابی بکر سیوطی۔
(۵۳) امام شہاب الدین ابوالعباس احمد بن خطیب قسطلانی شارح صحیح بخاری۔
(۵۴) علامہ عبدالرحمن بن علی شیبانی تلمیذ امام شمس الدین سخاوی۔
(۵۵) علامہ قاضی حسین بن محمد بن حسین دیار بکری مکی۔
(۵۶) مولانا الفاضل علی بن سلطان محمد قاری ہروی مکی۔
(۵۷) علامہ زین العابدین عبدالروف محمد شمس الدین مناوی۔
(۵۸) امام شہاب الدین احمد بن حجر مکی۔
(۵۹) شیخ تقی الدین احمد بن علی مقریزی اخباری۔

(۶۰) سید جمال الدین عطاء اﷲ بن فضل اﷲ شیرازی صاحبِ روضۃ الاحباب
(۶۱) امام عارف باﷲ سیدی علاء الملۃ والدین علی بن حسام الدین متقی مکی۔
(۶۲) علامہ شہاب الدین احمد خفا جی شارح شفاء 
(۶۳) علامہ علی بن احمد بن محمد بن ابراہیم عزیزی۔
(۶۴ ) علامہ محمد حفنی محشی افضل القرٰی
(۶۵) علامہ طاہر فتنی صاحبِ مجمع بحارالانوار
(۶۶) شیخ محقق مولانا عبدالحق بن سیف الدین بخاری
(۶۷) علامہ محمد بن عبدالباقی بن یوسف زرقانی مصری
(۶۸) فاضل محمد بن علی صبان مصری صاحبف اسعاف الراغبین وغیرہم ممن مضی ویجیئ۔

ومن الفقہاء والاصُولیین :

 (۶۹) امام اجل شیخ الاسلام والمسلمین علی بن ابی بکر برہان الدین فرغانی صاحبِ ہدایہ
(۷۰) امام ابوالبرکات عبداللہ بن احمد حافظ الدین نسفی صاحبِ کنز۔
(۷۱) امام محقق علی الاطلاق کمال الدین محمد بن الہمام۔
(۷۲) امام جلال الدین کرلالی صاحبِ کفایہ۔
(۷۳) امام محقق محمد بن محمد بن محمد ابن امیر الحاج حلبی۔
(۷۴) امام ابراہیم بن موسٰی طرابلسی مصری صاحبِ مواہب الرحمن۔
(۷۵) علامہ ابراہیم بن محمد حلبی شارح منیہ
(۷۶) علامہ سعد الدین مسعود بن عمر تفتازانی۔
(۷۷) علامہ محقق زین بن نجیم مصری صاحبِ بحر۔
(۷۸) ملک العلماء بحر العلوم عبدالعلی محمد لکھنوی۔
(۷۹) علامہ سید احمد مصری طحطاوی۔

 (۸۰) علامہ سید محمد افندی ابن عبابدین شامی وغیر ھم ممن تقدم رحم اﷲ تعالٰی علمائنا جمیعا من تاخر منھم ومن قدم اٰمن( اس کے علاوہ دیگر علماء جن کا پہلے ذکر ہوچکا ہے، اﷲ تعالٰی ہمارے تمام علماء متاخرین و تقدمین پر رحم فرمائے۔ امین ۔ت)

فصل دہم :

اُن کتابوں کے نام جن کی نقول دربارہ ابوطالب اس رسالہ میں مذکور ہوئیں:

کتبِ تفسیر :

 (۱) معالم التنزیل امام بغوی           (۲) مدارک التنزیل امام نسفی
(۳) انوارالتنزیل امام بیضاوی                   (۴) ارشاد العقل السلیم الی مزایا الکتاب الکریم للمفتی العلامۃ العماوی
(۴)کشاف حقائق التنزیل للزمخشری                (۶) مفاتیح الغیب للامام الرازی
(۷) تکملۃ المفاتیح للشمس الخوبی                (۸) جلالین
(۹) فتوحاتِ الہٰیہ للشیخ سلمین            (۱۰) عنایۃ القاضی وکفایۃ الراضی للعلامۃ الشہاب
(۱۱) معانی القرآن للزجاج                           (۱۲) فتوح الغیب للطیبی
(۱۳) تقریب مختصر الکشاف للیسرافی            (۱۴) بسیط للواحدی
(۱۵) لباب التاویل فی معانی التنزیل للعلامۃ الخازن (۱۶) الاحکام لبیان مافی القرآن من الابہام للعسقلانی

کتب حدیث:

 (۱۷) صحیح بخاری                 (۱۸) صحیح مسلم                     (۱۹) سُنن ابی داؤد 
(۲۰) جامع ترمذی                    (۲۱) مجتبٰی نسائی                  (۲۲) سُنن ابن ماجہ
(۲۳) مؤطا امام مالک         (۲۴) مؤطا امام محمد             (۲۵) مسند امام شافعی
(۲۶) مسند امام احمد          (۲۷) شرح معانی الآثار           (۲۸) مشکوۃ المصابیح
(۲۹) تیسیر الوصول الی جامع الاصول    (۳۰) جامع صغیر         (۳۱) منہج العمال للامام المتقی
(۳۲)کنزالعمال لہ                      (۳۳) منتخب کنزالعمال لہ     (۳۴) مصنف عبدالرزاق
(۳۵) مصنف ابی بکر بن ابی شیبہ    (۳۶) مسند ابوداؤد طیالسی       (۳۷) مسند اسحق بن راہویہ
(۳۸) طبقات ابن سعد      (۳۹)کتاب موسٰی بن طارق ابوقرہ     (۴۰) زیادات مغازی ابن اسحق لیونس بن بکیر
(۴۱) صحیح ابن خزیمہ            (۴۲) منتفی ابن زود                  (۴۳) مسند بزار
(۴۴) مسند ابی یعلٰی              (۴۵) معجم کبیر طبرانی            (۴۶) معجم اوسط لہ
(۴۷)فوائد تمام رازی              (۴۸)کامل ابن عدی                 (۴۹)کتاب الجنائز للمروزی
(۵۰)کتاب مکہ لعمر بن شبہ     (۵۱)کتاب ابی بشر                   (۵۲) فوائد سمویہ
(۵۳) مستخرج اسمعیل          (۵۴) مستدرک حاکم                (۵۵) حلیۃ الاولیاء لابی نعیم
(۵۶) سنن بیہقی                  (۵۷) دلائل النبوۃ                    (۵۸) سُنن سعید بن منصور
(۵۹) مسند فریانی               (۶۰) مسند عبدبن حمید             (۶۱) تفسیر ابن جریر
(۶۲) تفسیر ابن المنذر          (۶۳) تفسیر ابن ابی حاتم              (۶۴) تفسیر ابوالشیخ
(۶۵) تفسیر ابن مردودیہ         (۶۶) مغازی ابن اسحق علی ماقررنا وحررنا۔

شروحِ حدیث :

 (۶۷) منہاج شرح مسلم اللنووی                        (۶۸) عمدۃ القاری شرح صحیح بخاری للعینی
(۶۹) ارشاد الساری شرح صحیح بخاری اللقسطلانی             (۷۰) مرقاۃ شرح مشکوۃ للقاری
(۷۱) تیسیر شرح جامع صغیر للمناوی                         (۷۲) سراج المنیر شرح جامع صغیر للعزیزی
(۷۳) فتح الباری شرح صحیح بکاری للعسقلانی                  (۷۴)کواکب الدراری شرح صحیح بخاری للکرمانی
(۷۵) مفہم شرح صحیح مسلم للقرطبی

کتبِ فقہ

 (۷۶) ہدایہ                              (۷۷)کافی شرح الوافی کلاہماللامام النفسی
(۷۸) فتح القدیر للمحقق                           (۷۹)کفایہ شرح ہدایہ
(۸۰) حلیہ شرح منیہ للامام الحلبی                  (۸۱) غنیہ شرح منیہ للمحقق الحلبی
(۸۲) بحرالرائق شرح کنزالدقائق                           (۸۳) طحطاوی علی مراقی الفلاح للشر نبلالی
(۸۴) ردالمحتار علی الدرالمختار             (۸۵) بنایہ شرح ہدایہ للعینی
(۸۶) برہان شرح مواھب الرحمان کلاھما للطرابلسی

کتب سیر

 (۸۷) مواہب للدینہ و منح محمدیہ                          (۸۸) شرح مواہب للزرقانی
(۸۹) صراط المستقیم للمجد                                     (۹۰) شرح صراط المستقیم للشیخ
(۹۱) مدارج النبوۃ لہ                                             (۹۲) خمیس للدیار بکری
(۹۳) اسعاف الراغبین للصبان                                   (۹۴) روضۃ الاحباب
(۹۵) تاریخ ابن عساکر                               (۹۶) روض سہیلی
(۹۷) امتاع الاسماع للمقریزی

کتب عقائد واصول وعلوم شتی

 (۹۸) فقہ اکبر للامام اعظم                      (۹۹) شرح المقاصد للعلامۃ الماتن
(۱۰۰) اصابہ تمیز الصحابۃ للامام ابن حجر         
(۱۰۱) مسلک الحنفاء فی والدی المصطفی صلی اللہ علیہ وسلم للامام سیوطی
(۱۰۲) افضل القراء ام القری للامام ابن حجر                  (۱۰۳) شرح شفاء لعلی القاری
(۱۰۴) نسیم الریاض للخفاجی                             (۱۰۵) حفنی شرح الہمزیہ
(۱۰۶) مجمع البحار للفتنی                         (۱۰۷) فواتح الرحموت لبحر العلوم
(۱۰۸) التقریر و التحریر فی الاصول للعلامۃ ابن امیر الحاج
(۱۰۹) نہایہ فی غریب الحدیث لابن اثیر              (۱۱۰) شرح تنقیح الفصول فی الاصول کلا ہما للقرانی
(۱۱۱) ذخائر العقبی فی منا قب ذوی القر بی للحافظ المحب الطبری

تذییل

وہ کتابیں جن سے اس رسالہ میں مدد لی گئی:

 (۱۱۲) شرح عقائد نسفی                   (۱۱۳) شرح عقائد عضدی               (۱۱۴) سیرت ابن ہشام
(۱۱۵) اتقان فی علوم القرآن              (۱۱۶) میزان الاعتدال              (۱۱۷) تقریب التہذیب
(۱۱۸) تقریب امام نووی           (۱۱۹) تدریب امام سیوطی                (۱۲۰) مسلم الثبوت
(۱۲۱)  درمختار                         (۱۲۲)  تاریخ الخلفاء                          (۱۲۳) تحفہ اثناء عشریہ
(۱۲۴) صحیح ابن حبان          (۱۲۵) القاب شیرازی               (۱۲۶) استیعاب ابو عمر
(۱۲۷) معرفۃ الصحابہ لابی نعیم       (۱۲۸) مسند الفردوس دیلمی
(۱۲۹) خادم الامام بدر الدین الزرکشی      (۱۳۰) شعب الایمان للامام البیہقی

ختم اللہ تعالٰی لنا بالایمان والآمان  آمین آمین الحمد للہ علی الاختتام  و نسألہ حسن الختام ۔اللہ تعالٰی ایمان اور امان کے ساتھ ہمارا ختمہ کرے ، آمین ۔حسن اختتامِ رسالہ پر تمام تعریفیں اللہ تعالٰی کے لیے ہیں ،اور ہم اللہ تعالٰی سے حسنِ کاتمہ کا سوال کرتے ہیں ،(ت)

پہلے  یہ سوال بدایوں سے آیا تھا جواب میں ایک موجز رسالہ چند ورق کا لکھا اور اس کا نام"معتبر الطالب فی شیون ابی طالب"(۱۲۹۲ھ)رکھا ، اب کہ دوبارہ احمد آباد سے سوال آیا اور بعض علمائے بمبئی نے بھی اس بارہ میں توجہ خاص کا تقاضا فرمایا حسب حالت راہنہ و فرصت حاضرہ شرح وبسط کا فی کو کام میں لایا اور اسے اس اجمال اول کی شرح  بنایا نیز شرح مطالب وتسکین طالب میں بحمداللہ تعالی حافل وکامل پایا ،لہذا"شرح المطالب فی مبحث ابی طالب"(۱۳۱۶ھ)اس کانام رکھا اور یہی اس کی تاریخِ آغاز و انجام ۔

والحمدﷲ ولی الانعام وافضل الصلوۃ واکمل السلام علی سیّدنا محمد ھادی الانام وعلٰی اٰلہ وصحبہ الغرالکرام وعلینا بھم و لھم الٰی یوم القیٰمۃ ائمین یاذاالجلال والاکرام ، واﷲ سبحٰنہ وتعالٰی اعلم وعلمہ جل مجدہ اتم و احکم۔

سب تعریفیں اﷲ تعالٰی کے لیے ہیں جو انعام کا مالک ہے، اور افضل درود و اکمل سلام ہو ہمارے آقا محمد مصطفی پر جو کُل جہان کے ہادی ہیں، اور آپ کے روشن پیشانیوں والے اہل کرم آل و اصحاب پر اور انکے صدقے میں ہم پر اور اُن کے لیے یوم قیامت تک ہماری دعا قبول فرما اے بزرگی اور اکرام والے۔ اﷲ سبحنہ وتعالی خوب جانتا ہے ، اور اس کا علم اتم اور مستحکم ہے۔(ت)

      

رسالہ
شرح المطالب فی مبحث ابی طالب
ختم ہوا
نوٹ
جلد ۲۹ "عقائد و کلام و دینیات" کے عنوان پر اختتام پذیر ہوئی۔ فتاوٰی رضویہ کی آخری جلد ۳۰ اِن شاء اﷲ تعالٰی سیرت اور فضائل رسول اﷲ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے عنوان پر مشتمل ہوگی۔





No comments:

Post a Comment