ہے پاک


﴿:  ردیف الف :﴾
ہے پاک رُتبہ فِکرسے اُس بے نیاز کا​​
کچھ دخل عقل کا ہے نہ کام اِمتیاز کا
شہ رَگ سے کیوں وصال ہے ،آنکھوں سے کیوں حجاب
کیا کام اس جگہ خِرَدِ  ہرزہ تاز کا
لب بند اور دل میں وہ جلوے بھرئے ہوئے
اﷲ رے جگر ترے آگاہ ِراز کا
غش آ گیا کلیم سے مشتاقِ دید کو
جلوہ بھی بے نیاز ہے اُس بے نیاز کا
ہر شے سے ہیں عیاں مرے صانع کی صنعتیں
عالم سب آئینوں میں ہے آئینہ ساز کا
اَفلاک و ارض سب ترے فرماں پذیر ہیں
حاکم ہے تو جہاں کے نشیب و فراز کا
اس بے کسی میں دل کو مرے ٹیک لگ گئی
شُہرہ سُنا جو رحمتِ بے کس نواز کا
مانندِ شمع تیری طرف لَو لگی رہے
دے لطف میری جان کو سوز و گداز کا
تو بے حساب بخش، کہ ہیں بے شمار جرم
دیتا ہوں  واسطہ  تجھے  شاہِ حِجاز کا
بندے پہ تیرے نفس ِ لعیں ہو گیا مُحیط
اﷲ کر علاج مری حرص و آز کا
کیوں کر نہ میرے کام بنیں غیب سے حسنؔ
بندہ بھی ہوں تو کیسے بڑے کار ساز کا


No comments:

Post a Comment