استاذ زمن، حضرت مولانا حسن رضا صاحب قبلہ
õ
دل میں ہو یاد تیری گوشئہ تنہائی ہو
õ
پھر تو خلوت میں عجب انجمن آرائی ہو
õ
آستانہ پہ تیرے سر ہو اَجل آئی ہو
õ
اور اے جان جہاں
توبھی تماشائی ہو
õ
خاک پامال غریباں کو نہ کیوں زندہ کرے
õ
جس کے دامن کی ہو ا
بادامسیحائی ہو
õ
اُس کی قِسمت پہ فدا تخت شہی کی راحت
õ
خاک طیبہ ؔ پہ جسے
چین کی نیند آئی ہو
õ
تاج والوں کی یہ خواہش ہے کہ ان در پر
õ
ہم کو حاصل شرف ناصیہ فرسائی
ہو
õ
اک جھلک دیکھنے کی تاب نہیں عالم کو
õ
وہ اگر جلوہ کریں
کون تماشائی ہو
õ
آج جو عیب کسی پر نہیں کھلنے دیتے
õ
کب وہ چاہیں گے مری حشر میں رسوائی ہو
õ
کیوں کریں بزم
شبستان ِ جناں کی خواہش
õ
جلوہ یار جو شمع ِ
شب ِانتہائی ہو
õ
خلعت ِ مغفرت اس کے لیے رحمت لائے
õ
جس نے خاک ِ در شہ ِ جائے کفن پَائی ہو
õ
یہی منظور تھا قدرت کو کہ سایہ نہ بنے
õ
ایسے یکتا کے لیے
ایسی ہی یکتائی ہو
õ
ذکر خُدّام نہیں مجھ کو بتادیں دشمن
õ
کوئی نعمت بھی کسی اور سے گرپائی ہو
õ
جب اٹھے دست ِ اَجل
سے مِری ہستی کا حجاب
õ
کا ش اس پر دہ کے اندر تِری زیبائی ہو
õ
دیکھیں جان بخشی لب کو تو کہیں خضر و مسیح
õ
کیوں میرے کوئی اگر ایسی مسیحائی ہو
õ
کبھی ایسا نہ ہوا ان
کے کرم کے صدقے
õ
ہاتھ کے پھیلنے سے پہلے نہ بھیک آئی ہو
õ
بند جب خوابِ اَجَلْ سے ہوں حسنؔ کی آنکھیں
õ
اس کی نظروں میں تِرا جلوہ زیبائی ہو
No comments:
Post a Comment