आसीयोन को दर

عاصیوں کو دَر تمہارا مل گیا
بے ٹھکانوں کو ٹھکا نا  مِل گیا
فضل ِ رب سے پھر کمی کس بات کی
مِل گیا سب کچھ جو طیبہؔ   مل گیا
کشفِ رازِ مَنْ رَّاٰنِی یوں ہوا
تم ملے تو حق تعالیٰ مل گیا
بے خودی ہے باعثِ کشفِ حجاب
مِل گیا ملنے کا رستہ مِل گیا
اُن کے دَر نے سب سے مستغنی کیا
بے طلب بے خواہش  اِتنا  مل گیا
ناخدائی کے لیے آئے حضور
ڈوبتوں کو  سہارا مل گیا
دونوں عالم سے مجھے کیوں کھو دیا
نفسِ خود مطلب تجھے کیا مِل گیا
خلد کیسا  کیا  چمن کس کا  وطن
مجھ کو صحراے مدینہ مل گیا
آنکھیں پُرنم ہو گئیں سر جُھک گیا
جب ترا نقشِ کَفِ پا مل گیا
ہے محبت کس قَدَر نامِ خدا
نامِ حق سے نامِ والا مل گیا
اُن کے طالب نے جو چاہا پا لیا
اُن کے سائل نے جو  مانگا  مِل گیا
تیرے دَر کے ٹکڑے ہیں اور میں غریب
مجھ  کو  روزی  کا ٹھکانا  مل گیا
اے حسنؔ   فردوس میں جائیں جناب
ہم کو صحراے مدینہ مل گیا

No comments:

Post a Comment